جنوری 2002 میں سارک کانفرنس کے گیارہویں اجلاس میں سیاہ شیروانی پہنے اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں وہ کہا جس سے ان کے پروٹوکول اور دفترخارجہ کے افسران بھی لاعلم تھے۔ وہ وہیں بیٹھے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی جانب مڑے اور کہا:
’اب جبکہ میں (تقریر ختم کر کے) پوڈیم سے اتر رہا ہوں، میں وزیراعظم واجپئی کی طرف مخلص دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ ہمیں مل کر جنوبی ایشیا میں امن، ہم آہنگی اور ترقی کے سفر کو آگے بڑھانا ہو گا۔‘
اس کے بعد جو ہوا اس کی کسی کو توقع نہ تھی اور یہ آنے والے کئی برسوں تک خبروں میں رہا۔ مشرف خاموش بیٹھے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی نشست کی جانب گئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ اس دوران ہر طرف تالیوں کی گونج تھی۔
اسی طرح 2014 میں بھی کھٹمنڈو میں ہی سارک کانفرنس کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان مصافحہ خبروں کی زینت بنا رہا۔ اس مصافحے کے لیے تو نیپال نے اہم کردار ادا کیا جب نیپالی وزیراعظم انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا ہاتھ پکڑے اس طرف لے آئے جہاں نواز شریف موجود تھے۔
دونوں لیڈرز نے ہاتھ ملائے، مسکرائے، جملوں کا تبادلہ کیا اور تصویر بنوائی۔ اس سے قبل دونوں وزرائے اعظم ایک دوسرے سے دور دور دکھائی دیے تھے۔
بعد ازاں نیپال کے وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اگرچہ ہم نے دونوں وزرائےاعظم کے لیے ایک ماحول پیدا کیا تھا، مگر یہ دونوں لیڈرز کا اپنا فیصلہ تھا کہ وہ مصافحے کے لیے آگے بڑھے۔‘
2002 میں کھٹمنڈو میں پرویز مشرف اور واجپئی کے درمیان ہونے والا مصافحہ ہو یا 2018 میں اسی شہر میں نریندر مودی اور نواز شریف کے درمیان ہاتھ ملاتے ہوئے مسکراہٹ کا تبادلہ، دونوں ملکوں کے درمیان محض باڈی لینگویج سے جڑے ان واقعات کو ’آئس بریکنگ‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
Getty Images
سفارتی ملاقاتوں میں باڈی لینگیویج اور ’نان وربل کمیونکیکشن‘ ایک بار پھر زیر بحث ہے اور اس کی وجہ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا کا دورہ ہے۔
باڈی لینگویج اشارات، حرکات، اور غیر لفظی اظہار سے بنتی ہے۔ سفارتی ملاقاتوں میں باڈی لینگویج اہم سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے دونوں طرف ان پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے جو کہ الفاظ کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم نان وربل کمیونیکیشن کے اس طریقہ کار میں بہت کھل کر جذبات یا خیالات کا اظہار نہیں کیا جاتا تاکہ کوئی بھی بیانیہ بننے کی صورت میں اس کو رد کرنے کی گنجائش باقی رہے۔
باڈی لینگویج سے نہ صرف ان ملاقاتوں کی کامیابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ باہمی تعلقات میں تبدیلی کا اشارہ دینے کے لیے کلیدی کردار بھی ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب دو ملکوں کے درمیان سردمہری قائم ہو۔
مثلاً 2018 میں جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم یانگ ان کے درمیان ملاقات ہوئی تو سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر اس ملاقات کا تفصیلی جائزہ بھی لیا گیا۔
کم کس وقت پہنچے، ان کے ہاتھ میں ڈائری کیوں تھی، اس ڈائری کا رنگ کیا تھا، ٹرمپ جو عالمی رہنماؤں کو انتظار کراتے تھے اس روز وقت پر کیوں پہنچے، مصافحے کے لیے بڑھتے ہوئے کتنے سیکنڈز کے بعد کس لیڈر نے پہلے ہاتھ اٹھایا، مصافحہ کتنے سیکنڈز جاری رہا، پہلے ٹرمپ مسکرائے یا کم نے سمائل دی، کس نے کس کی طرف کتنے سیکنڈز دیکھا، کون کرسی پر کیسے بیٹھا تھا اور ان سب اشاروں کا کیا مطلب ہو سکتا ہے اور یہ باڈی لینگویج امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں کتنی مددگار ہو سکتی ہے؟
یہ اور ان جیسی کئی باتیں ہفتوں میڈیا کی زینت بنی رہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں ہوں یا ایسے ممالک جن کے درمیان سفارتی کشیدگی برقرار رہتی ہے، ملاقاتوں میں باڈی لینگویج یا نان وربل کمیونکیشن سے معنی اخذ کرنا ایک عام بات ہے۔
مثلا ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کا تذکرہ بھی کئی دن جاری رہا۔
Getty Images
آج بھی سوشل میڈیا پر بلاول بھٹو زرداری اور انڈین وزیرخارجہ جے شنکر کے درمیان چند لمحوں کی اس ملاقات کا ذکر جاری ہے جو گوا میں ہوئی، مگر اس سے زیادہ دونوں رہنماؤں کے چہرے کے تاثرات اور لباس وغیرہ پر بھی بات کی جارہی ہے۔
مثلا بلاول بھٹو کا قومی لباس پہننا سراہا جا رہا ہے تو کئی صارفین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ وہ زیادہ خوش کیوں نظر آ رہے ہیں یا یہ کہ انھوں نے ہاتھ جوڑ کر جے شنکر کو جواب کیوں دیا۔
دہلی سے بی بی سی کے نامہ نگار نیاز فاروق کے مطابق پاکستان اور انڈیا دونوں نے عوامی طور پر کہا ہے کہ گوا میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو دو طرفہ تعلقات کے نظریے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن 12 سال کے بعد پہلی بار انڈیا کے دورے پر آنے والے پاکستان کے وزیر خارجہ نے تجسس پیدا کر دیا ہے۔
پانچ مئی کی صبح دونوں رہنما کیمرے کے سامنے نظر آئے، اگرچہ بظاہر سرد انداز میں۔ وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کرنے والے رہنماؤں کا استقبال کرتے ہوئے جے شنکر نے ’نمستے‘یعنی ہاتھ جوڑ کر انڈیا کے ایک روایتی اندازسے بلاول بھٹو کا استقبال کیا، اور انھوں نے بھی دوسرے وزرائے خارجہ کی طرح اسی انداز میں جواب دیا۔ اس کے بعد دونوں لیڈر بنا مصافحہ کئے کچھ دوری پر خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔
جے شنکر نے دیگر ممالک کے رہنماؤں سے بھی مصافحہ نہیں کیا تھا لیکن فوٹوز کلک ہونے کے چند سیکنڈ بعد جے شنکر مسکراتے ہوئے بھٹو سے کچھ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں اور دوسرے لیڈروں کی طرح انھیں بھی جانے کا اشارہ کرتے ہیں۔ بھٹو اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
اس میں خاص بات یہ ہے کہ دونوں لیڈر جب تک کیمرے پر تھے تب تک ایک دوسرے سے بالکل بات کرتے نظر نہیں آئے، جب کہ جے شنکر سٹیج پر آنے والے دیگر لیڈروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
بعد میں وزرائے خارجہ کے گروپ فوٹو میں جے شنکر، میزبان کے طور پر درمیان میں کھڑے ہیں، اور بلاول اور روسی وزیر خارجہ لاوروف ایک ساتھ جے شنکر سے ایک فرد دور کھڑے ہیں۔
حالانکہ دونوں رہنماؤں نے مبینہ طور پر چار مئی کو ایس سی او ڈنر میں مصافحہ کیا تھا لیکن اس پروگرام میں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی اور بعد میں نہ ہی کوئی تصویر یا متعلقہ معلومات جاری کی گئیں۔
انڈیا کی خارجہ پالیسی میں ان اشاروں اور علامتوں کی تنقید کرتے ہوئے دفاعی امور کے ماہر سوشانت سنگھ نے ٹویٹ کیا کہ ’دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی مفادات اور اقدار پر مبنی ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اب ایک تیار کردہ تصویر کے تحفظ پر مبنی خارجہ پالیسی ہے چاہے وہ جے شنکر کی بھٹو سے ہاتھ ملانے کی تصویر ہو یا لداخ میں اپنے علاقے کا کنٹرول کا کھونا ہو۔‘
لیکن کیا ان اہم ملاقاتوں کے حوالے سے کوئی قواعد و ضوابط ہیں۔
Getty Imagesکیا سفارتی ملاقاتوں کے کوئی قواعد و ضوابط موجود ہیں؟
کسی بھی ملک میں رہنماؤں کے درمیان اہم ملاقاتوں سے قبل بعض اوقات کئی مہینوں تک عملہ کام کرتا ہے۔ ان ملاقاتوں سے متعلق تفصیلی بریفنگز کے طویل دور کیے جاتے ہیں۔
ملاقات کے دوران کون استقبال کرے گا، گاڑی کے کس دروازے سے مہمان باہر آئے گا، مصافحہ کتنی دیر کا ہو گا، باڈی لینگیویج ریلیکس رکھنی ہے یا چہرے اور جسم میں تناؤ اور سنجیدگی نظر آنی چاہیے، مصافحہ کتنا طویل ہو گا، ملاقات میں کیا بات چیت کی جائے گی اوریہ کتنی دیر تک جاری رہے گی، ملاقات کے بعد بیانات دینے ہیں یا نہیں دینے اور کیا بیانات دیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام معاملات ان متعدد میٹنگز میں زیر بحث آتے ہیں جو کسی بھی اہم ملاقات سے قبل کئی دن اور ہفتوں جاری رہتی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ اس معاملے پر پروٹوکول کہ باڈی لینگویج کیسی رکھنی ہے، کسی دستاویز کی شکل میں نہیں مگر ایک پریکٹس ہے جو جاری رہتی ہے۔
ان کے مطابق ’باڈی لینگویج ایک نئی ٹرم ہے۔ یہ ہر شخص کی شخصیت پر بھی منحصر ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ساری صورتحال بتائی جائے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے کوئی غلطی کر دی تو وہ وزیراعظم کی نہیں بلکہ ان کے چیف پروٹوکول افسر کی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں بتائے کہ یہاں کھڑے ہونا ہے، یہاں جھنڈا ہو گا، یہاں گاڑی ہو گی، کس سے ہاتھ ملانا ہے، یہاں بیٹھنا ہے۔ اور اگر وزیراعظم سے کوئی غلطی ہوئی تو اس کو اس افسر کی غلطی مانا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ دفتر خارجہ کا عملہ کسی بھی دورے یا ملاقات کے حوالے سے متعلقہ وزیر یا وزیراعظم کو بریف کرتا ہے، اور پورا دورہ کوریوگراف کیا جاتا ہے۔
’بلاول بھٹو نے شلوار قمیض پہنا، جو ایک مثبت پیغام ہے اور ان کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کہتے جے شنکر کو جواب دیا، تو وہ بھی سندھ کے کلچر کا ایک حصہ ہے۔ مگر یہ تمام باڈی لینگویج یا ان سے سامنے آنے والے پیغامات کی اہمیت صرف اس وقت ہوتی ہے جب تک کوئی بیان جاری نہ ہو جائے۔ جونہی معاملہ وربل کمیونیکیشن یا باقاعدہ بیانات کی شکل اختیار کر لے، تمام باڈی لینگویج وغیرہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیر خارجہ اور ان سے اوپر عہدوں پر ملاقاتیں ہوں تو ان کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ان کی ملاقاتوں کے درمیان تمام سرگرمیوں اور اشاروں کو بہت غور سے دیکھا جاتا ہے۔‘
سفارتی ملاقاتوں میں باڈی لینگویج بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے دونوں طرف ان پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے جو کہ الفاظ کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔
اٹھارہویں صدی کے آغاز تک تو سفارتی تعلقات میں کشیدگی قائم رہتی تھی اور اس کی ایک بڑی وجہ سفارتی ملاقاتوں میں پروٹوکولز کے جامع اور مربوط نظام کی کمی تھی۔ اکثر سفیروں کی طرف سے جانتے بوجھتے یا انجانے میں ایسی نان وربل کمیونیکیشن کی جاتی تھی جو غلط فہمیاں پیدا کرتی اور دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوتے۔
سفارتی سطح پر نان وربل کمیونکیشن کے ذریعے مختلف قسم کے پیغام دیئے جا سکتے ہیں، مگر یہ اتنے غیرواضح ہوتے ہیں کہ حتمی طور پر رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ ملاقات میں موجود سفارتکار یا سیاستدان کسی بھی وقت اس بیانیے سے خود کو دورکر سکتے ہیں جو محض ان کی باڈی لینگویج دیکھتے ہوئے قائم ہو گیا۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا یا یہ کہ میڈیا نے ان کے مصافحے کو غلط رنگ دیا ۔۔۔ اور شاید یہی نان وربل کمیونیکیشن کا مقصد بھی ہے!
Getty Images
باڈی لینگویج احترام کے لیے بہت اہم ہے، مثلاً، ایک گرم جوش مصافحہ، مسکراہٹ یا سر ہلانے سے یہ اشارہ دیا جاسکتا ہے کہ رہنما ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لیے کھلے دل سے آئے ہیں۔ یا مسلسل نوڈ کرنا اور ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑنا یا طویل مصافحہ کرنا۔ اگر چہ سفارتکاری میں ایک دوسرے کو چھونا نازیبا بھی خیال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ باڈی لینگویج کو برتری یا تسلط قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً، سیدھے اور ’سٹیف‘ انداز میں بیٹھنا، جبکہ بدن کو جھکانا یا نظر نہیں ملانا کمزور تسلط کا اظہار کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے کم ینگ کی ملاقات کے بعد یہ موضوع زیر بحث رہا، جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے اسے ان کا ’کانفیڈینس‘ قرار دیا تو کم ینگ ان کی حمایت کرنے والوں نے ان کا خاموش رہنا ’شمالی کوریا میں بزرگوں سے بات کا ایک انداز‘ قرار دیا۔
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے سفارتی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شوکت پراچہ کہتے ہیں کہ اہم یہ ہے کہ ’آپ میزبان ہیں یا مہمان۔ میزبان ہمیشہ اپنی روایات اور اقدار کا خیال رکھتے ہوئے خوش آمدید کہتا ہے اور ایک دوسرے کے کلچرل پروٹوکول کے بارے میں پہلے میزبان اور مہمان کو بریفنگ دی گئی ہوتی ہے‘۔
خیال رہے کہ میزبان اور مہمان کے سٹاف یا عملے کے درمیان تمام پروٹوکولز کا تبادلہ ملاقاتوں سے پہلے ہی کر دیا جاتا ہے۔
شوکت پراچہ کے مطابق جے شنکر ہاتھ باندھے خوش آمدید کر رہے تھے تو یہ ان کا کلچر ہے، پاکستان تو اس کلچر کو سمجھتا ہے مگر روس اور چین کو بھی اسی سٹائل سے خوش آمدید کہا یعنی میزبان کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اپنی روایات اور اقدار کو فالو کرے۔ مثلا ایک بار آسٹریلیا کرکٹ ٹیم کے کپتان اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو سے ملے تو انہوں نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ مگر بینظیر بھٹو نے ان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا کیونکہ وہ میزبان تھیں اور انہوں نے اپنی روایت کی پابندی کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
ماہرین کے مطابق ایسی سفارتی ملاقاتوں کے درمیان مہمان بھی اپنی ’سینسیٹیوٹیز‘ کے ساتھ جاتے ہیں، جہاں ایک طرف وہ اپنی اقدار کی پابندی کرتے ہوئے کوئی پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو دوسری طرف وہ اپنے ملک میں عوام کی توقعات کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا اس وقت ناگزیر ہو جاتا ہے جب یہ ملاقات اعلی عہدوں پر موجود سیاستدانوں کے درمیان ہو اور ملکوں کا سیاسی ووٹ بینک ان معاملات سے جڑا ہو۔
صحافی اور تجزیہ کار شوکت پراچہ کے مطابق ان ملاقاتوں میں ہر چیز کی منصوبہ بندی کے لیے کئی ہفتے اجلاس کیے جاتے ہیں، ’یہاں تک کہ میڈیا سے بات چیت کیسے کرنی ہے، کن صحافیوں سے بات کرنی ہے، کن اداروں کو انٹرویوز دینے ہیں، کن سوالات کے کیا جوابات دینے ہیں، اس بارے میں ان ملکوں میں تعینات مشنز سے معلومات لی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ تقریر یا خطاب پر تو ایک مہینہ پہلے کام شروع کر دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اکثر ’چانس میٹنگز کی بات کی جاتی ہے کہ دو لیڈرز کے درمیان ایک سائیڈ میٹنگ ہوئی یعنی ایک ایسی ملاقات جو پلاننگ کا حصہ نہیں تھی۔ تو یہ بھی غلط ہے۔ اس سطح پر کچھ بھی ایسا نہیں جس کی منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو، ان سائیڈ لائن ملاقاتوں کا بھی ایجنڈا تیار ہوتاہے کہ ان کے دوران کیا بات کرنی ہے اور کیا پیغام دینا ہے۔‘
شوکت پراچہ کے مطابق باڈی لینگویج یا نان وربل کمیونکیشن کی اہمیت بہت زیادہ ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جو لوگ مل رہے ہیں ان کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ملنے والے کون ہیں، کیا وہ سیاستدان ہیں یا سفارتکار ہیں۔ سیاستدانوں سے مختلف توقعات ہوتی ہیں اور وہ عام طور پر ملکی سیاست اور اپنے ووٹ بینک کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک سفارتکار خود پر کافی حد تک قابو رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے جے شنکر جو ایک سفارتکار رہے ہیں، اور بلاول بھٹو جو کہ سیاستدان ہیں، کی ملاقات میں دیکھا۔‘
باڈی لینگویج یا سفارتی ملاقاتوں میں ’نان وربل‘ انداز میں پیغام رسانی کی اہمیت اپنی جگہ، تجزیہ کار اور بین الاقوامی أمور کے ماہرین یہی سمجھتے ہیں کہ جو پیغام الفاظ کی شکل میں دیا جاتا ہے، وہی اہم ہوتا ہے اور ملکوں کے درمیان تعلقات کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو زرداری اور جے شنکر کی تقاریر کا متن ان کی باڈی لینگویج سے زیادہ اہم ہے، تاہم فی الحال ایسا لگتا ہےکہ دونوں ملکوں کے سوشل میڈیا کی حد تک لباس، مصافحوں اور مسکراہٹوں پر ٹویٹس کا سلسلہ جاری رہے گا۔