BBC
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے خلاف نو مقدمات میں پیشی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ آئے تو کمرہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے وہ کافی دیر تک اپنی گاڑی میں بیٹھے رہے تاکہ انھیں گاڑی احاطہ عدالت میں لے جانے کی اجازت مل جائے۔لیکن جب عدالت نے اس کی اجازت نہیں دیتوعمرانخانگاڑی سے اترے اور ویل چییر پر بیٹھ کر چیف جسٹس عامر فاورق کی عدالت میں پیش ہوئے۔
ویل چیئر پر ہونے کی وجہ سے انھیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منورگل کی کرسی کے ساتھ جگہ ملی تو ان دونوں کے درمیان اسلام آباد سے سابق رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان کھڑے ہو گئے۔ اس پر ایک صحافی نے کہا کہ وہ ملزم اور پراسیکویشن کے درمیان کیوں حائل ہیں تو علی نواز اعوان نے جواب دیا کہ وہ پراسیکوشن کو عمران خان سے بچانا چاہتے ہیں جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف سات مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں کی سماعت شروع کی توعمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقتملک میں غیر معمولی حالات ہیں اور ان کے موکل کے خلاف ایک سو چالیس سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم پرامن طریقے سے آتے ہیں اور ضمانت لیکر چلے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کے خلاف فوجداری دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ میں نہیں آنا چاہتے تھے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونا چاہتے تھے لیکن سیکیورٹی کے حالات کی وجہ سے ادھر آئے ہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں وہ سیاسی نوعیت کے ہیں جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ان معاملات کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ آپ کے موکل نے ابھی تک تفتیش جوائن کیوں نہیں کی جس پرعمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ابھی شامل تفتیش ہونے کو تیار ہیں، جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ شامل تفتیش ہونے کا ایک طریقہ کار ہے جس پر عمل درآمد ہو نا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں کسی نجی پرائیویٹ ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا جاتا اس کے لیے سرکاری ہسپتال سے طبی معائنہ کرواکر رپورٹ لیکر آئیں۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے کہا کہ حکومت ملزم کی خواہش میں میڈیکل بورڈ بنانے کو تیار ہے۔
عمران خان کے وکیل نے اتنی زیادہ سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی آپ سیکیورٹی نہ ہونے کی بات کرتے ہیں اور کبھی سیکیورٹی زیارہ ہونے کا شکوہ، آپ یہ بتائیں کہ آپ کا معاملہ ہے کیا؟
اس دوران فواد چوہدری جو کہ عمران خان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جاکر عدالت کو بتاتا ہوں کہ کیا معاملہ ہے۔ اس کے بعد وہ روسٹم پر آگئے اور کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد ان کی جماعت کے علاوہ اور کوئی نہیں کر رہا۔ انھوں نے کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم کی گاڑی کو عدالت کے احاطے میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
Getty Imagesعدالت کے باہر عمران خان کی کار
فواد چوہدری نے جب اونچی آوازمیں بولنا شروع کیا تو چیف جسٹس عامر فاروق نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اونچی آواز میں بولنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے اور یہ کہہ کر دو رکنی بینچ اٹھ کر چلا گیا۔
اس پیش رفت کے بعد پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا کہ ’لگتا ہے کہ کام خراب ہو گیا ہے۔‘
جب بینچ اٹھ کر چلا گیا تو عمران خان نےکہا کہ ان کی 70سال کی عمر میں ان کے خلاف ایک بھی مقدمہ درج نہیں ہوا جبکہ 71 ویں سال میں ان کے خلاف 140 سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اپنے ٹیسٹ کرئیر میں تو ڈبل سنچری نہیں کی لیکن لگتا ہے کہ مقدمات میں یہ ہندسہ عبور کرلوں گا۔‘
عدالت کے اٹھ جانے کے بعد کمرہ عدالت میں موجود صحافی عمران خان کے اردگرد جمع ہوگئے اور مختلف معاملات پر ان سے سوالات کرنے لگے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجنے پر ان سے معافی مانگنے کے سوال پر عمران خان نے کسی ادارے کا نام لیے بغیر کہا کہ ’انھوں‘ نے بتایا تھا کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہیں چاہے وہ جج ہی کیوں نہ ہوں۔
جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ موجودہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے دور میں ہی پی ٹی آئی کی قیادت ملک میں عام انتخابات کروانے پر بضد ہے تو ان کا کہنا تھا کہ آئین پرعمل درآمد چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ موجودہ چیف جسٹس کی حمایت میں ان کی جماعت سنیچر کو ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرہ کرے گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا کورٹ مارشل نہیں ہونا چاہیے تو عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کا نہیں بلکہ جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے کیونکہ وہ جنرل فیض کا باس تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا جنرل فیض سے کبھی رابطہ نہیں رہا۔
سابق آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے متعدد بار جنرل باجوہ کے منہ سے سنا تھا کہ اگر انڈیا کے ساتھ جنگ ہوئی تو ملک کے پاس فوجی ٹینکوں کے لیے پیٹرول بھی نہیں ہوگا۔
جب تک عدالتی کارروائی چلتی رہی اس وقت تک عمران خان کی انگلیاں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح پر ہی رہیں۔
کمرہ عدالت میں عمران خانکبھی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر اور کچھ دیر کے بعد دوسری ٹانگ پہلی والی ٹانگ پر رکھ دیتے تھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران عمران خان اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران عمران خان کی زخمی ٹانگ پر دباؤ آیا تھا جس کی وجہ سے ان کی ٹانگ پر سوجن ہے۔
کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کے کارکن اور رہنما عمران خان کی ویل چیئر کے پیچھے کھڑے ہوکر تصاویر بنواتے رہے۔ عدالتی عملے کے منع کرنے کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا۔