انڈیا میں ایس سی او اجلاس: بلاول بھٹو کے دورے میں باہمی تعلقات پر پیشرفت کی توقع کیوں نہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 04, 2023

Getty Images

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے گوا پہنچ چکے ہیں۔ وہ 2011 کے بعد انڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہیں۔

اس سے قبل جب پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے 12 سال قبل اپنے انڈین ہم منصب ایس ایم کرشنا سے دلی میں ملاقات کی تھی تو حالات کافی مختلف تھے۔

انڈیا اور پاکستان تعلقات میں بہتری اور تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بحران کا شکار تھے۔

امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سنٹر کے مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’اس وقت سفارتی ماحول باہمی میل جول کی کوششوں کے لیے تیار تھا۔ آج یہ ایک مختلف کہانی ہے۔‘

پاکستان اور انڈیا 1947 میں آزاد ہوئے لیکن اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ایک کے علاوہ باقی سب جنگوں کا محور کشمیر کا تنازع تھا۔

2019 میں، انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں فوجیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستانی علاقے پر حملہ بھی کیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی فضائی کارروائی کی۔

سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی ایک حالیہ یادداشت میں دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں کے بعد، دونوں ممالک جوہری جنگ کے قریب آ چکے تھے لیکن 2021 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق نے کسی حد تک تناؤ پر قابو پانے میں مدد فراہم کی۔

جب انڈیا نے گزشتہ سال غلطی سے ایک سپرسونک میزائل پاکستان کی سمت میں داغ دیا تھا تو اسلام آباد نے اس واقعے کو سنگین بحران میں تبدیل کیے بغیر، اس میزائل لانچ کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا۔

کوگل مین کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ باہمی تعلق کسی محفوظ مقام پر ہیں۔ یہ ہمیشہ تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ آج بھی دونوں فریقوں کو محاذ آرائی کی جانب واپس لے جانے کے لیے صرف ایک محرک درکار ہو گا۔‘

Getty Images

ایسے حالات میں شاید یہ حیرت کی بات نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کے گوا کے ساحلی شہر کے دورے سے توقعات کافی کم ہیں۔

پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر کے عہدے پر کام کرنے والے ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ’دراصل انڈیا اور پاکستان دونوں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے ساتھ تعلق کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔‘

سنہ 2001 میں وسطی ایشیا میں سکیورٹی اور اقتصادی معاملات پر بات چیت کے لیے قائم ہونے والی ایس سی او کی قیادت چین کرتا ہے جو پاکستان کا ایک اہم اتحادی ہے۔ دوسری جانب روس بھی اس فورم کا رہنما ہے جو پاکستان کا ایک اہم ابھرتا ہوا دوست بن کر سامنے آ رہا ہے۔

اس تنظیم میں وسطی ایشیا کے چار دیگر اراکین ممالک بھی شامل ہیں اور یہ ایک ایسا خطہ ہے جس سے اسلام آباد تجارت، رابطوں اور توانائی کے لیے جڑا رہنا چاہتا ہے۔

مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’اسلام آباد کے لیے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے پاکستان کو ایک ایسی تنظیم سے الگ تھلگ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جو اپنے مفادات کو مضبوطی سے قبول کرتی ہے۔‘

تاہم بلاول بھٹو زرداری اور ان کے انڈین ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان کوئی دو طرفہ ملاقات متوقع نہیں۔

دلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ہیپی مون جیکب کہتے ہیں کہ ’اس حقیقت کے علاوہ کہ ایک پاکستانی وزیر خارجہ نے طویل عرصے سے انڈیا کا دورہ نہیں کیا، یہ دورہ وسیع تر دوطرفہ تناظر میں کافی غیر اہم ہے۔‘

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، جو اب واشنگٹن ڈی سی کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں ہیں، بھی اسی طرح کے جذبات کی باز گشت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دورہ تعلقات میں کسی قسم کی بہتری کی نمائندگی نہیں کرتا۔

Getty Images

مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو دو طرفہ نہیں بلکہ علاقائی تناظر میں دیکھنا بہتر ہو گا۔‘

’وہ دلی کے ساتھ مفاہمت کی کوشش نہیں کریں گے۔ وہ علاقائی تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں جو پاکستان کے مفادات کے لیے کافی اہمیت رکھتی ہے۔‘

ایسے میں دونوں حریف ممالک ایک ایسی کیفیت میں منجمند نظر آتے ہیں جسے پروفیسر ہیپی مون جیکب ’سرد امن‘ کا نام دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی فریق حالات خراب نہیں کرنا چاہتا لیکن مسائل پر بات چیت شروع کرنے یا دوسرے ملک کو رعایت دینے میں کسی کو جلدی نہیں۔‘

ٹی سی اے راگھون کا خیال ہے کہ ’دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پچھلے دو سال سے مستحکم ضرور ہیں لیکن ایک کم تر سطح پر۔‘

پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اس تعلق کو وقتاً فوقتاً اتار چڑھاؤ کے ساتھ ورزش کی مشین پر چلنے سے تشبیہ دیتے ہیں۔

تاہم ایک حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں دونوں ممالک کشیدگی کم رکھنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور وہ انڈیا کے ساتھ کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ انڈیا کو چین کے بارے میں تشویش ہے، جو اس کا سب سے بڑا سکیورٹی چیلنج ہے، اور وہ پاکستان سے اپنے مغربی محاذ پر اضافی پریشانی نہیں چاہتا۔‘

لیکن اگر دونوں فریق کشیدگی کو کم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انڈیا میں ہونے والی کانفرنس دیرپا مفاہمت کو آگے بڑھانے کا موقع کیوں نہیں؟ واضح طور پر، سیاست راستے میں کھڑی ہے۔

مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’اگر امن کے لیے کوششیں کی گئیں تو دونوں ملکوں میں عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔ یہ خاص طور پر پاکستان میں مہنگا پڑے گا، جہاں حکومت پہلے ہی بہت زیادہ غیر مقبول ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بلاول بھٹو، جنھیں ان کی والدہ بے نظیر نے بتایا کہ ’ہر انڈین میں تھوڑا سا پاکستان ہے‘

بلاول بھٹو کا مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ کہنے کا معاملہ: پاکستان میں نانا سے موازنے، انڈیا میں ’بزدلی‘ کے طعنے

انڈین اور پاکستانی وزرائے خارجہ کا تقابلی جائزہ: ایس جے شنکر کے سامنے بلاول بھٹو کہاں کھڑے ہیں؟

Getty Images

ہر ملک کا ماننا ہے کہ باضابطہ بات چیت کے لیے اس کی بنیادی شرط پوری نہیں ہوئی۔ انڈیا دہشت گردی کو اہم موضوع سمجھتا ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ انڈیا اپنی کشمیر پالیسی کو تبدیل کرے۔ (انڈیا اور پاکستان پورے کشمیر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن صرف اس کے کچھ حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں)

واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے حسن عباس کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور پاکستان کے تعلقات بہترین وقتوں میں بھی نازک رہتے ہیں۔‘ ان کے مطابق انڈیا اور پاکستان دونوں میں موجود سیاسی تفریق صورت حال کو مزید خطرناک بناتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان بیک چینل بات چیت کی حالیہ غیر مصدقہ خبریں بھی ماہرین کو متاثر نہیں کرتیں۔

پروفیسر جیکب کہتے ہیں کہ ’اس طرح کی بات چیت تنازعات کے حل کے بجائے تنازعات کی مینیجمنٹ کے بارے میں ہوتی ہے۔‘

تاہم حسین حقانی امید کی کرن دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گوا جیسی ملاقاتیں اکثر بات چیت کی بحالی کی راہ ہموار کرتی ہیں‘ لیکن باقی ماہرین اتنے پر امید نہیں ہیں۔

حسن عباس کہتے ہیں ’بہترین وقتوں میں بھی، پاکستان اور انڈیا کے تعلقات نازک ہی رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک پرامن تعطل ایک اچھا آپشن ہے لیکن طویل مدت میں، امن معاہدے سے کچھ بھی کم ہونا نقصان دہ ہوگا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More