Getty Images
انڈیا کے دارالحکومت نیو دہلی کے جنتر منتر کے مقام پر خواتین ریسلرز دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ انھوں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ریسلر فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ نے ایک نابالغ لڑکی سمیت کم از کم 7 ریسلرز کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ یہ ریسلر لڑکیاں انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
عام طور پر جب یہی ریسلرز تمغے لے کر گھر لوٹتی ہیں تو لوگ ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاست دان ان کے ساتھ تصویریں لے کر ٹویٹ کرتے ہیں اور بالی ووڈ کی کہانیوں میں ان خواتین کے با اختیار ہونے سے متعلق ان کی جیت کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن عام دنوں کے برعکس آج ان لڑکیوں میں سے کئی انصاف کی تلاش میں نیو دہلی کے مشہور احتجاجی مقام جنتر منتر پر دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
یہ مقام انڈیا کی پارلیمنٹ سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں کھلے آسمان کے نیچے یہ کھلاڑی تقریباً دو ہفتے سے کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئی ہیں۔
اگرچہ برج بھوشن نے ان الزامات کی تردید کی ہےتاہم یہ الزامات سنگین ہیں اور احتجاج کرنے والی ریسلرز میں اولمپک میڈلسٹ ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا اور کامن ویلتھ اور ایشین گیمز میں گولڈ میڈلسٹ وینیش پھوگاٹ بھی شامل ہیں۔
مگر اس وقت وہ ایک ایسے با اثر سیاست دان کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں جو حکمران جماعت بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔
یہ سارا معاملہ ہے کیا؟
واضح رہے کہ یہ معاملہ پہلی بار اس سال جنوری میں منظر عام پر آیا تھا جب 30 ریسلرز نے دلی کے جنتر منتر کے مقام پر احتجاج کیا اور برج بھوشن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اس کے جواب میں حکومت نے باکسر میری کوم کی قیادت میں ایک چھ رکنی کمیٹی بنائی، جس میں ریسلرز کی طرف سے بھی نمائندگی تھی۔ کمیٹی نے 5 اپریل کو حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی لیکن رپورٹ عام نہیں کی گئی۔
حالانکہ خبر رساں ایجینسی پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ کمیٹی نے برج بھوشن کو ’کلین چٹ‘ دے دی ہے۔
برج بھوشن تاحال ریسلنگ فیڈریشن کے صدر ہیں۔ جب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تب ان ریسلرز میں سے کئی 23 اپریل کو دوبارہ جنتر منتر واپس آ گئیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انکوائری رپورٹ ان کے ساتھ شیئر نہیں کی گئی اور مطالبہ کیا کہ اس رپورٹ کو عام کیا جائے۔
انھوں نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا کہ دلی پولیس نے ان کے جنسی الزامات کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔ آخر کار سپریم کورٹ کی مداخلت پر پولیس نے 29 اپریل کو ایف آئی آر درج کی لیکن ان ریسلر کا مطالبہ ہے کہ برج بھوشن کو گرفتار کیا جائے۔
جنسی ہراسانی کے یہ واقعات سنہ 2012 سے سنہ 2022 کے درمیان پیش آئے۔ ان میں سے کچھ واقعات بیرون ملک میں ہوئے اور چند برج بھوشن کے گھر پر پیش آئے جو کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کا ہیڈ آفس بھی ہے۔
کیا ایسا واقعہ انڈیا میں پہلی بار ہوا؟
کھلاڑیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات اکثر سننے میں آتے ہیں لیکن ان کے خلاف سخت کارروائی کی مثالیں بہت کم ہیں۔
اس طرح کے معاملے میں فوری کارروائی کی ایک حالیہ مثال 2022 میں سامنے آئی، جب سپورٹس اتھارٹی آف انڈیا نے جون 2022 میں چیف سائیکلنگ کوچ آر کے شرما کا معاہدہ ایک انکوائری کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے ختم کر دیا۔
اس معاملے میں ایک خاتون سائیکلسٹ نے کوچ پر سلووینیا میں ٹریننگ کے دوران ’غیر مناسب حرکت‘ کا الزام لگایا تھا۔
لیکن اکثر حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی سنہ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں حکومت کے زیر انتظام 24 مختلف کھیلوں کے اداروں میں جنسی ہراسانی کی کم از کم 45 شکایات درج کی گئیں لیکن ملزمان کو شاذ و نادر ہی سزا سنائی گئی ہے۔
ایک پارلیمانی رپورٹ کے مطابق جنسی ہراسانی کے واقعات کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بہت سے مقدمات میں معمولی سزا دینے کےبعد تحقیقات کئی برسوں تک جاری رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
انڈین ریسلرز کا بی جے پی رہنما پر جنسی ہراسانی کا الزام: ’ہم محفوظ نہیں تو دوسری لڑکیوں کا کیا ہو گا؟‘
’دس کھلاڑیوں کا جنسی استحصال کیا گیا ہے‘، معروف انڈین ریسلر ونیش پھوگاٹ کا ڈبلیو ایف آئی کے صدر پر الزام
انڈین خواتین کھلاڑیوں کے لیے جنسی ہراس کے معاملات کو سامنے لانا آسان نہیں ہوتا
کیا اس احتجاج سے کھلاڑیوں کے حالات بہتر ہونے کے امکانات ہیں؟
یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جب ریسلرز اجتماعی طور پر عوامی طور پر سنگین الزامات کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور مسلسل کھیلوں کی دنیا کے ایک بااثر سربراہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ احتجاج کتنا کامیاب ہوگا۔
برج بھوشن نے نہ صرف ان الزامات کی تردید کی بلکہ انھوں نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ بی جے پی کے چند رہنماؤں نے ان کھلاڑی لڑکیوں کے الزامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سینیئر سپورٹس صحافی نورس پریتم نے اس احتجاج کو تاریخی قرار دیا۔ انھوں نے بی بی سے کو بتایا کہ ’میری یاد میں آج تک کوئی بڑی ریسلر اتنے سنگین الزامات کے ساتھ دھرنا دینے پر مجبور نہیں ہوئی مگر اب اس بدلتی صورتحال میں اس دھرنے کا اثر یہ ہو گا کہ کھیلوں کے حکام اب کچھ زیادہ احتیاط سے کام کریں گے۔‘
’لیکن میں یہ کہنے سے گریز کروں گا کہ اس سے ملک میں کھیلوں کا نظام بدل جائے گا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ احتجاج کو ابھی تک عوامی حمایت حاصل نہیں۔ ’اگر آج کرکٹ کی دنیا کا کوئی بھی بڑا کھلاڑی جنتر منتر پر ایسے ہی الزامات لگا کر بیٹھا ہوتا تو عام لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا، یہ مظاہرہ بہت بڑا ہوتا اور اس کا اثر کہیں زیادہ ہوتا‘۔
لیکن احتجاج کی نوعیت میں نمایاں تبدیلی ضرور آئی ہے۔
جنوری میں اپنے پہلے احتجاج میں خواتین ریسلرز نے سیاست دانوں سے دوری اختیار کی ہوئی تھی بلکہ انھوں نے بائیں بازو کی ایک خاتون سیاست دان کو احتجاج میں حصہ لینے سے منع کر دیا تھا تاہم اس بار انھوں نے تمام رہنماؤں کا خیرمقدم کیا جبکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں۔
انھوں نے اس دفعہ ہر طبقے کے لوگوں سے حمایت کی اپیل کی ہے۔ کھیلوں اور بالی ووڈ کی چند مشہور شخصیات نے ان کی حمایت میں ٹویٹ کیے،اور سیاسی رہنماؤں جیسے پرینکا گاندھی، اروند کیجریوال اور نوجوت سنگھ سدھو نے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مقام کا دورہ کیا۔
اس احتجاج کا موازنہ سماجی کارکن انا ہزارے کی قیادت میں سنہ 2012 کے مظاہروں کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔ انا ہزارے کی قیادت میں ہونے والا احتجاج اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوا اور سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی ذلت شکست کی ایک اہم وجہ بنا۔
لیکن پی ٹی آئی نیوز ایجنسی کے سپورٹس صحافی امن پریت سنگھ اس سے متفق نہیں۔ انھوں نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں ان دونوں تحریکوں کا موازنہ کرنا غلط ہے۔۔۔ اپیل کے باوجود صرف چند ایک فعال کھلاڑیوں نے ان کی حمایت کی۔ باقی سب ریٹائرڈ کھلاڑی ہیں۔ پہلوان، جو ہڑتال پر وہاں موجود ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسی صورتحال میں مجھے نہیں لگتا کہ یہ تحریک ملک کے کھیلوں کے نظام کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ برج بھوشن کے خلاف الزامات ثابت بھی نہیں ہوئے ہیں‘۔
Getty Images فی الحال احتجاج جاری ہے
جمعرات کو یہ احتجاج بارھویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔ احتجاجی کیمپ میں کئی پلے کارڈز اور بینر لگے ہوئے ہیں جن پر یہ نعرے درج ہیں کہ ’پہلوانی کوئی سیاست نہیں جانتی، ’ہم جھکیں گے نہیں، اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔‘ ان میں سے ایک پوسٹر برج بھوشن کے مبینہ جرائم کی فہرست کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
ایک طرف لوگ ان خواتین ریسلرز کی حمایت میں باہر آ رہے ہیں اور متعدد سیاسی رہنما ان کے حق میں تقریریں کر رہے ہیں تو دوسری طرف برج بھوشن اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
ان خواتین ریسلرز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت تک وہاں سے نہیں ہٹیں گی جب تک برج بھوشن کو جیل نہیں بھیج دیا جاتا۔
خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ برج بھوشن کو اخلاقیات کی بنیاد پر ان کے عہدے سے ہٹا دیں ’کیونکہ وو جب تک اس عہدے پر رہیں گے، اسعہدے کا غلط استعمال کریں گے، تحقیقات پر اثر انداز ہوں گے، ہم غیر جانبدارانہ تفتیش چاہتے ہیں‘۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اگر ملک میں کھیلوں کو بچانا ہے تو ایسے لوگوں کے چنگل سے پہلے کھیلوں کو چھڑوانا ہوگا۔ یہ صرف کشتی کی بات نہیں، یہ ہر کھیل کی بات ہے۔‘