’زمین بیچ کر ایک روپیہ نہیں دیا گیا‘ وراثت میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی قبائلی خواتین

بی بی سی اردو  |  May 03, 2023

BBCرخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ بیس خواتین کے کیس میں جلد جمرود کے اسسٹنٹ کمشنر ایک کھلی کچہری کا اہتمام کریں گے

خیبر پختونخوا کی نجمہ اور ان کے قبیلے کی دیگر خواتین نے جائیداد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کام کے لیے ضلع خیبر میں جمرود تحصیل کی رہائشی نجمہ اور دیگر خواتین نے خیبر پختونخوا میں خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ اور انسداد جنسی ہراسانی کے صوبائی محتسب میں درخواست جمع کرائی ہے۔

نجمہ بتاتی ہیں کہ سال 2004 میں ان کے شوہر کی زمینی تنازعات کے دوران موت ہوئی جس کے بعد انھیں وراثت میں کچھ نہ مل سکا اور انھوں نے ’انتہائی مشکل سے بڑی بیٹی کی شادی کی۔‘ ان کے دو بیٹے کم عمری سے ہی محنت مزدوری کر کے گھر کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قبیلے کے عمائدین نے اُس زمین کو کروڑوں روپے میں حکومت کو بیچ کر آج تک ایک روپیہ نہیں دیا جو ہمارا حق تھا۔ ہم نے مجبوراً دیگر خواتین کے ساتھ مل کر صوبائی محتسب میں کیس دائر کر دیا ہے۔‘

نجمہ کے مطابق ماضی میں بھی حکومت قبیلے کی مشترکہ جائیداد خرید چکی ہے جس میں چند افراد نے کروڑوں روپے وصول کیے مگر بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’کچھ عرصہ قبل جب دوبارہ ہماری مشترکہ زمینوں کی فروخت کی بات ہوئی تو علاقے کی کچھ تعلیم یافتہ خواتین نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ عدالت چلے جائیں تاہم قبائلی معاشرے میں ایسا کرنا بہت مشکل قدم تھا لیکن دیگر خواتین نے حوصلہ دیا اور ہزاروں خواتین کے حقوق کے لیے ہم سامنے آئے۔‘

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم شدہ سابقہ قبائلی اضلاع سے پہلی بار جمرود کی 20 خواتین نے وراثت میں حصے کے لیے صوبائی محتسب کے دفتر سے رجوع کیا ہے، جس پر باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے اور فریقین کو چار مئی کو حاضری کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

زمین کی فروخت کے بعد رقم کی غیر منصفانہ تقسیم کا الزام

ان خواتین کے وکیل شیراز حسین نے کہا ہے کہ حیات آباد کے مغرب کی جانب پاک افغان شاہراہ پر شاہ کس کے علاقے میں آفریدی قبیلے کوکی خیل کی ذیلی شاخ کھٹیاخیل کی ایک مشترکہ جائیداد ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس زمین پر ڈیڑھ ایکڑ پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر کا دفتر ہے جبکہ حکومت کو ساڑھے پینتس ایکڑ ریسکو 1122 کے ہیڈ کوارٹر و اکیڈمی کے لیے تقریباً 82 کروڑ روپے میں فروخت کی گئی۔

اُن کے بقول رقم کی ’غیر منصفانہ تقسیم‘ کے خدشے کے پیش نظر کھٹیاخیل قبیلے کے کچھ افراد نے عدالت سے رقم کی ادائیگی کو رکوایا جبکہ رواں سال نو فروری کو خواتین کی طرف سے بھی صوبائی محتسب میں کیس دائر کر دیا۔

تحصیل جمرود میں کھٹیاخیل میں مشترکہ زمینوں کی حکومت کو فروخت میں بدعنوانی، غیر متعلقہ افراد کو رقم کی ادائیگی اور بغیر اجازت زمین کی خریداری کے کئی مقدمات عدالتوں میں ہیں۔

BBCنجمہ بتاتی ہیں کہ سال 2004 میں ان کے شوہر کی زمینی تنازعات کے دوران موت ہوئی جس کے بعد انھیں وراثت میں کچھ نہ مل سکا

ان مقدمات میں ایک مدعی ارشد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈی پی او کے دفتر اور ریسکیو ہیڈکوارٹر کے لیے خریدی گئی زمین کے معاملے میں عدالت نے رقم کی ادائیگی روک دی تھی۔

اُن کے بقول شاہ کس کے علاقے میں مشترکہ 23 ایکڑ زمین بغیر پوچھے فرنٹیئر کور کو ہسپتال کی تعمیر کے لیے فروخت کی گئی 11 کروڑ روپے چھ افراد کو ادا کیے گئے جبکہ ناردرن بائی پاس کے لیے 93 کینال زمین میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے قبیلے کے ایک ہی فرد کو رقم کی ادائیگی کے خلاف بھی کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔

ضلع خیبر کے حکام نے بتایا کہ انضمام کے بعد ڈسٹرک ایڈمنسٹریشن کمپلکس، سپورٹس سٹیڈیم، فرنٹیئر کور کے ہیڈکوارٹر سمیت دیگر اداروں کے دفاتر کے لیے اٹھارہ سو کینال زمین مزید درکار ہے تاہم پہلے سے خریدی گئی زمینوں پر مقامی قبائل کی طرف سے رقم کی تقسیم کے معاملے پر کیسز عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے فی الحال حکومت مزید زمین نہیں خرید رہی۔

حکام کے مطابق ڈی پی او دفتر، ریسکیو ہیڈکوارٹر اور ناردان بائی پاس پر تعمیراتی کام بھی بند ہے۔

جائیداد میں حصہ مانگنے پر ’لوگوں کو اپنی عزت کی فکر پڑ گئی‘

چار بچوں کی ماں اور بیوہ شمیم بی بی، جو صوبائی محتسب سے رجوع کرنے والی خواتین میں سے ایک ہیں، کا کہنا ہے کہ ’جب خاندان والوں کو پتا چلا کہ میں نے قبیلے کی مشترکہ زمین کے حوالے سے درخواست کی ہے تو سخت ردعمل سامنے آیا اور کہا گیا کہ پشتون روایات میں یہ شرمندگی کی بات ہے۔‘

اُن کے بقول جب مالی مسائل میں زندگی گزر رہی ہو تو آج تک کسی نے کوئی مدد نہیں کی جبکہ آج اپنے حق کے لیے آواز بلند ہونے پر ’لوگوں کو اپنی عزت کی فکر پڑ گئی ہے۔‘

مقامی عمائدین کے مطابق انضمام سے پہلے کھٹیاخیل قبیلے کی مشترکہ زمین لیویز سینٹر، حیات آباد انٹرسٹری اسٹیٹ، حیات آباد کے فیز 6 اور فیز 7 کے لیے بیچی جا چکی ہے اور مقامی روایات کے مطابق ہر خاندان کو اپنا حصہ مل چکا ہے۔ ’اس عمل سے بعض لوگ خوش نہیں لیکن اُن کے پاس عمل میں مداخلت کا کوئی راستہ نہیں تھا جبکہ انضمام کے بعد اُن کو قانون کے مطابق مشترکہ زمین میں پورا حق حاصل ہو چکا ہے۔‘

انضمام کے فیصلے کے بعد قبائلی علاقوں میں زمینی تنازعات میں اضافہ ہو گیا جس کی بنیادی وجہ ان علاقوں میں زمین کا سرکاری ریکارڈ نہ ہونا ہے۔

تاہم اس حوالے سے صوبائی محتسب کی سربراہ رخشندہ ناز نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبائی محتسب کو مذکورہ اضلاع سے وراثت میں خواتین کو حصہ دلانے میں زمین کا ریکارڈ نہ ہونا کوئی رکاوٹ نہیں کیونکہ ان علاقوں میں خاندان اور قبیلوں کی حد بندی معلوم ہے اور اس بنیاد پر مرد زرعی و کمرشل زمینوں سے اپنے حصے کی آمدن وصول کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

غیرت کے نام پر قتل میں پولیس مداخلت روایات کے خلاف کیوں سمجھی جاتی ہے؟

خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟

BBCتحصیل جمرود میں مشترکہ زمینوں کی حکومت کو فروخت میں بدعنوانی، غیر متعلقہ افراد کو رقم کی ادائیگی اور بغیر اجازت زمین کی خریداری کے کئی مقدمات عدالتوں میں ہیں’پہلی بار ایک کیس میں 20 خواتین اپنے حق کے لیے سامنے آئی ہیں‘

صوبائی محتسب کے دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے وارثت میں حق کے لیے سال 2020 میں 97 میں سے ایک، 2021 میں 281 میں سے چار، 2022 میں 619 میں سے 11 جبکہ رواں سال اپریل تک 204 میں پانچ کیسز ضم اضلاع سے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

ادارے کی سربراہ رخشندہ ناز نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلی بار ضم اضلاع سے ایک کیس میں 20 خواتین وراثت میں اپنے حق کے لیے سامنے آئی ہیں۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ متعلقہ محکموں سے تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں جبکہ ضلعی پولیس افسر کو ان خواتین کے تحفظ کے لیے باقاعدہ مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔

رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ بیس خواتین کے کیس میں جلد جمرود کے اسسٹنٹ کمشنر ایک کھلی کچہری کا اہتمام کریں گے اور شناختی کارڈ رکھنے والی کھٹیاخیل قبیلے کی تمام خواتین کو مدعو کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں اُن کو بھی معاوضوں کی ادائیگی کی جا سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ 2019 میں وراثت کے قانون میں خواتین کو خاندانی اور اجتماعی زمینوں میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن نوشین فاطمہ نے کہا کہ دیگر علاقوں کے مقابلے سابقہ قبائلی اضلاع کی خواتین کے مسائل زیادہ ہے جن میں ایک بنیادی وجہ وہاں پر 70 سال تک ملک کے دیگر علاقوں کی طرح قوانین کی توسیع نہ ہونا ہے جبکہ سخت روایات کی وجہ سے بھی ’کوئی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھا سکتا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد خواتین کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہوا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے صوبے کے متعلقہ اداروں کا رُخ کر رہی ہیں جو خوش آئند ہے۔

BBCسخت روایات کے خاتمے کے ساتھ زمین کے ریکارڈ کی بھی ضرورت

عائشہ درانی صنفی مساوات کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں جو ضم شدہ اضلاع میں زمین کا ریکارڈ بنانے میں محکمہ ریونیو اور دیگر اداروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں روایات کے مطابق زمینوں کی تقسیم کا نظام موجود ہے تاہم وقت کے ساتھ مسائل اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں جن کا واحد حل باقاعدہ زمین کا ریکارڈ مرتب کرنا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ لوگ خود آ کر اپنی آبائی جائیدادیں رجسٹرڈ کرا سکے۔

سات قبائلی اضلاع میں پشتون روایات کے مطابق تنازعات کے حل کے لیے جرگہ نظام موجود تھا تاہم علاقے میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی لہر سے جرگے کمزور ہوئے جبکہ انضمام کے بعد پولیس اور عدالتی نظام کی توسیع سے یہ بے اثر ہو گئے۔

’مقامی لوگوں نے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کو رخ کرنا شروع کیا۔ جرگوں میں خواتین کو براہ راست نمائندگی کا حق حاصل نہیں لیکن عدالت میں ایسا ممکن ہے۔‘

رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ پورے صوبے سے وارثت میں حق کے لیے بارہ سو درخواستیں موصول چکی ہیں، جن میں صرف 20 کیس ضم اضلاع سے ہیں، جو انتہائی کم تعداد ہے جس کی بنیادی وجہ معلومات کی کمی، مردوں کا جائیداد پر قبضہ اور سخت روایات ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ضلع مہمند سے پانچ کیس پہلے نوٹس میں فریقین کے آپس میں بیٹھنے سے حل ہوئے جبکہ درہ آدم خیل سے پانچ خواتین نے کوئلے کی کانوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں اپنے حصے کے لیے رجوع کیا تھا تاہم لیز میں صوبائی محتسب کے ساتھ اختیار نہ ہونے کی وجہ سے کیس دیگر متعلقہ اداروں کو بھیج دیا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More