ایک اپارٹمنٹ سے شروع ہونے والی کمپنی نے بنگلور کو ’انڈیا کی سیلیکون ویلی‘ کیسے بنایا؟

بی بی سی اردو  |  May 02, 2023

Getty Images

انڈین ریاست کرناٹک کا دارالحکومت بنگلور اپنی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے مقبول ہے۔ ان کمپنیوں کے کام کرنے کے طریقہ کار اور مختلف علاقوں سے آنے والے ملازمین کے باعث یہاں ایک مختلف قسم کی ثقافت پروان چڑھی ہے۔

ٹیکنالوجی کی بدولت بنگلور شہر میں کاروبار اور تجارت نے انڈیا کے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے۔ یہاں کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے انجینیئرز اور آئی ٹی پروفیشنلز کا خصوصی مقام ہے۔

تمام معروف بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیاں ان پروفیشنلز کو بہترین تنخواہوں پر نوکری دینے کے خواہشمند ہیں۔

تاہم 50 سال پہلے بنگلور شہر کا مستقبل اتنا روشن نہیں تھا۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یہ انڈیا کے دیگر پسماندہ شہروں کی طرح کا ایک اور شہر تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور ’انڈیا کی سیلیکون ویلی‘ بن کر ابھر آیا، یہ کہانی بہت دلچسپ ہے اور ’انفوسس‘ کا نام لیے بغیر یہ کہانی ادھوری ہے۔

انفوسس کا آغاز

بنگلور میں قائم ہونے والی ایسی ہی ایک معروف کمپنی انفوسس ہے اور بنگلور کو انڈیا کی سیلیکون ویلی میں تبدیل کرنے میں اس کمپنی کا تعاون قابلِ ذکر ہے۔

انفوسس کے بانی نارائن مورتی نے بی بی سی کے پروگرام وٹنس ہسٹری سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے دن سے ہم کفایت شعاری پر مبنی طرزِ عمل پر یقین رکھتے تھے کیونکہ ہمارے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے۔‘

’لہٰذا جن پانچ سے چھ افراد کی مدد سے ہم کام کرتے تھے وہ سب ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔‘

سنہ 1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی انفوسس اب انڈیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

کمپنی کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے نارائن مورتی کہتے ہیں کہ ’شام کو ہم سب ایک ساتھ وقت گزارتے تھے۔ یہ ایک الگ قسم کی خوشی ہوا کرتی تھی۔ ہم میں سے کچھ کھانا پکاتے، کچھ سبزیاں کاٹتے، کچھ برتن دھوتے۔ ہم ایک ٹیم کی طرح تھے۔ ہم سب نے مل کر بہت مزہ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آج انفوسس جیسی کمپنی کی مالیت آٹھ کھرب ڈالر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے جو محنت کی ہے اس کا صلہ ملا ہے۔‘

Getty Imagesنارائن مورتی کا آئیڈیا جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بہت محنت لگی

نارائن مورتی سنہ 1946 میں انڈین ریاست کرناٹک کے ایسے علاقے میں پیدا ہوئے جو بنگلور سے زیادہ دور نہیں تھا۔

اپنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہماری فیملی میں 11 لوگ تھے۔ یہ ایک لوئر مڈل کلاس فیملی تھی۔ ایک ہائی سکول ٹیچر کی تنخواہ پر اتنے لوگوں کی مدد کرنا آسان نہیں تھا۔‘

انڈیا نے نارائن مورتی کی پیدائش کے صرف ایک سال بعد سنہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تھی۔

انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ملک کے دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ دی اور اس میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔

بنگلور شہر پہلے ہی ہنر مند انجینیئر پیدا کرنے کے لیے شہرت رکھتا تھا اور جغرافیائی طور پر ملک کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اس شہر کو ایک اضافی فائدہبھی تھا۔

اس شہر نے ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترقی دینے کے وزیر اعظم نہرو کے اقدام سے فائدہ اٹھایا کیونکہ یہ انڈیا کے ہمسایہ ملک پاکستان کی سرحد سے بہت دور واقع تھا جس کے ساتھ انڈیا کے تعلق ہمیشہ سے ہی تناؤ کا شکار رہے ہیں۔

Getty Imagesنارائن مورتی سنہ 1946 میں انڈین ریاست کرناٹک کے ایسے علاقے میں پیدا ہوئے جو بنگلور سے زیادہ دور نہیں تھا’یار یہ کمپیوٹر نہیں پرنٹر ہے‘

انڈیا سنہ 1970 کی دہائی تک ٹیکنالوجی سپر پاور نہیں بن سکا تھا۔

نارائن مورتی بتاتے ہیں کہ ’اس وقت ہم نے جو آلات اور مشینیں دیکھی تھیں وہ سائز میں بہت بڑی تھیں۔ اندازاً دو فٹ بائی تین فٹ کی مشین بھی ہوا کرتی تھی۔‘

’ایک دن میرے ایک ہم جماعت نے مجھے کہا کہ وہ مجھے کمپیوٹر دکھانے لے جائے گا۔ پڑھائی کی غرض سے جس جگہ میں گیا تھا وہاں پہنچنے کے دوسرے دن اس نے مجھے یہ بات کہی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میرے اس ہم جماعت نے مجھے ایک ایسی مشین دکھائی جو بہت شور مچا رہی تھی۔ وہیں صفحات پر صفحات چھاپے جا رہے تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ ایک کمپیوٹر ہے اور میں تب تک اس سے انتہائی متاثر ہو چکا تھا۔

’اس شام میں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں نے پہلی بار کمپیوٹر دیکھا ہے۔ وہ سب ہنس پڑے۔ انھوں نے مجھ بتایا کہ یار تم نے جو مشین دیکھی ہے وہ کمپیوٹر نہیں، پرنٹر تھا۔‘

نارائن مورتی ابھی تک کمپیوٹر کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے تھے کہ کمپیوٹر ہی اب ’ہمارا مستقبل بننے والا ہے۔‘

تبدیلی کیسے آئی؟

اُس وقت انڈیا میں ٹیکنالوجی کی صنعت پر زیادہ تر کنٹرول بائیں بازو کی انڈین حکومت کا تھا لیکن جب 27، 28 برس کی عمر کے نوجوان نارائن مورتی نے یورپ کا دورہ کیا تو انھیں احساس ہوا کہ نظام بدلنا ہو گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں امرتسر سے پیرس پہنچا۔ یورپ میں میں نے چاروں سو خوشحالی دیکھی۔ سڑکیں صاف تھیں۔ تیز رفتار ٹرینیں بہترین انداز میں چل رہی تھیں۔ اس کے بعد سے بائیں بازو کے نظریات اور سوشلزم پر میرا اعتماد کم ہونے لگا۔‘

نارائن مورتی کہتے ہیں کہ ’اس وقت میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ملک کو غربت سے نکالنے کا واحد طریقہ کاروبار کی حوصلہ کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت اور روزگار پیدا کیا جا سکے۔‘

یوں نارائن مورتی نے اپنا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سنہ 1981 میں انفوسس کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں درج ہے۔‘

انفوسس کے قیام کی شروعات میں نارائن مورتی نے چھ انجینیئرز کو ملازمت دی۔ سنہ 1983 میں اپنے قیام کے دو سال بعد ان کی کمپنی اپنا ہیڈکوارٹر بنگلور منتقل کر چکی تھی۔

شروعات میں انفوسس کے زیادہ تر کلائنٹس امریکی ملبوسات کی کمپنیاں تھیں جن میں ’ری بوک‘ بھی شامل تھا۔

Getty Imagesامریکہ میں لاکھوں کمپیوٹر اور انڈیا میں تعداد صرف چند ہزار

انفوسس نے ایسا آرڈر مینجمنٹ سافٹ ویئر تیار کیا جس کی مدد سے ایک امریکی کمپنی تائیوان کے جنگل میں گارمنٹس فیکٹری کو گارمنٹس بنانے کے لیے آرڈر بھیج سکتی تھی۔

یہ سافٹ ویئر مصنوعات اور سروسز کے آرڈرز اور ادائیگی کو بہت تیز اور آسان بناتا تھا۔

تاہم پھر بھی انفوسس ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑا نام پیدا کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا تھا۔ اس تنظیم کو بڑا بنانے کے لیے انھیں انڈیا کے بیوروکریٹک نظام کے خلاف ایک بڑی لڑائی شروع کرنی پڑی۔

نارائن اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ کمپنی میرے اپارٹمنٹ میں ایک بیڈروم سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت کمپنی کے پاس کوئی کمپیوٹر نہیں تھا۔

’کمپیوٹر درآمد کرنے کے لیے 30 بار دارالحکومت دلی جانا پڑتا تھا اور اس میں اوسطاً دو سے تین سال لگتے تھے۔‘

1982 سے 1984 تک انڈیا میں یہی صورتحال رہی۔ مختلف رکاوٹوں کی وجہ سے انفوسس کو آگے لے جانا ایک مشکل کام تھا۔ دس سال کے بعد بھی اس کمپنی کی آمدنی درمیانے درجے پر رہی۔

اس وقت مختلف حکومتی اقدامات کی وجہ سے کمپنی نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ سنہ 1988 میں جب امریکہ میں لاکھوں کمپیوٹر کام کر رہے تھے تو پورے انڈیا میں یہ تعداد صرف چند ہزار تھی۔

بنگلور: پسماندہ شہر سے انڈیا کے ’کمپیوٹر کیپیٹل‘ بننے تک کا سفر

لیکن سنہ 1991 میں اچانک سب کچھ بدل گیا۔ سنہ 1997 میں نشر ہونے والی بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم میں دکھایا گیا کہ چند سال پہلے تک بنگلور بہت پسماندہ تھا تاہم اب اس شہر کا چہرہ یکسر بدل چکا ہے۔ یہ اب انڈیا کا ’کمپیوٹر کیپیٹل‘ بن گیا ہے۔

انڈین حکومت نے سنہ 1991 میں لبرل اقتصادی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں انفوسس سمیت دیگر ٹیکنالوجی کمپنیاں حکومتی کنٹرولز اور پابندیوں سے آزاد ہو گئیں۔

یوں یہ ٹیکنالوجی کمپنیاں تیز رفتاری سے ترقی کرنے لگیں اور عالمی اقتصادی نظام میں داخل ہو گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں بڑا کردار ادا کرنے لگیں۔

سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور ویڈیو کانفرنسنگ ٹیکنالوجی نے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود کمپنیوں کو ایسے قریب لایا ہے جیسے کہ وہ آمنے سامنے موجود ہوں۔

ایسے ہی ایک ٹیکنالوجسٹ، جنھوں نے نوے کی دہائی کے وسط میں انفوسس میں کام کیا تھا، بتاتے ہیں کہ ان کی قدر میں اچانک اتنا اضافہ کیسے ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں جس طرح کا کام یہاں کرتا تھا وہ 30 گنا کم لاگت میں آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔‘

Getty Imagesترقی کی سیڑھیاں چڑھتا بنگلور

چند سال میں انڈین ٹیکنالوجی کمپنیاں سب سے آگے چلی گئیں اور اسی وقت بنگلور شہر پوری دنیا کی توجہ میں آ گیا۔

اس شہر میں کام کرنے والے انجینئرز کو دنیا بھر کے ٹیکنالوجی ماہرین قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

انفوسس کے اہلکار بتاتے ہیں کہ ’انڈیا میں نوجوان بہتر تنخواہوں کی امید میں ہی مغربی ممالک کی طرف ہجرت نہیں کرتے بلکہ مغربی ممالک کمپنیوں نے اپنے تمام اہم عہدوں کے لیے انڈین پروفیشنلز کو تلاش کرتی ہیں۔‘

انفوسس کو 11 مارچ 1999 کو امریکی سٹاک مارکیٹ میں درج کیا گیا تھا۔ جس کے باعث یہ دنیا کی معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک بن گئی۔ اس کے نتیجے میں، عالمی معیشت میں انڈیا کا کردار مضبوط ہو گیا۔

نارائن مورتی کہتے ہیں کہ ’جس دن کمپنی نیس ڈیک پر لسٹ ہوئی تو یہ لسٹ ہونے والی پہلی انڈین کمپنی تھی۔ اس دن میں مین ہٹن، نیویارک میں نیس ڈیک ایکسچینج کے دفاتر میں ایک جگہ بیٹھا تھا۔

’نیل آرمسٹرانگ سے کچھ لفظ ادھار لیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ یہ نیس ڈیک کے لیے ایک چھوٹا قدم ہے لیکن انفوسس اور انڈیا کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے۔ میرے خیال میں وہ بہت بڑا دن تھا۔‘

ٹیکنالوجی کا انقلاب

اس کے بعد بنگلور میں ٹیکنالوجی کا انقلاب آ گیا تاہم شہر میں اس تبدیلی کے بعد کیا صورتحال یورپ جیسی ہے جو نارائن مورتی نے اپنے دورے پر دیکھی تھی؟

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے شہریوں کی زندگی بہت زیادہ آرام دہ ہو گئی ہے۔ اب بہت سارے اچھے ہسپتال ہیں، اچھے تعلیمی ادارے ہیں لیکن کیا یہ کافی ہیں؟

’نہیں ابھی کام جاری ہے لیکن پچھلے 30 سال میں ہم نے بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں جو ہمیں امید دلاتی ہیں۔ اس لیے میں جب صبح اٹھتا تو اپنے آپ کو بتاتا ہوں کہ ابھی مزید محنت کرنی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں آخر میں ہم ایک بہتر انڈیا دیکھیں گے۔‘

آج انفوسس دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کے لیے سافٹ ویئر تیار کرتا ہے اور 50 سے زیادہ ممالک میں کاروباری اداروں کو ٹیکنالوجی سے متعلق مشاورت فراہم کرتا ہے۔

نارائن مورتی سنہ 2014 میں انفوسس سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور فی الحال وہ اپنا زیادہ تر وقت فزکس اور کمپیوٹر سائنس پر کتابیں پڑھنے میں صرف کرتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More