وہ میسجنگ ایپس جن پر انڈیا نے کشمیر میں ’شدت پسندی‘ پھیلانے کے الزام میں پابندی لگائی ہے

بی بی سی اردو  |  May 02, 2023

Getty Images

انڈیا کی حکومت نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ان 14 موبائل ایپس پر پابندی لگائی ہے جس کی حکام کے مطابق انڈیا میں نمائندگی نہیں اور انھیں اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’شدت پسندی کی سرگرمیوں میں رابطوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘

انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اطلاع دی تھی کہ ان ایپس کے ذریعے وادی کشمیر میں پیغامات کے لین دین کے توسط سے انھیں دہشت گردی کے پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کی خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں موجود ’شدت پسند‘ ان موبائل ایپس کو کشمیر میں اپنے حامیوں اور اوور گراؤنڈ ورکرز سے رابطے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔

ان کے مطابق ’خفیہ ایجنسیاں اوور گراؤنڈ ورکرز اور دہشت گردوں کے مابین رابطے کے چینلوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ اسی طرح کی ایک ٹریکنگ کے دوران ایجنسیوں کو پتا چلا کہ ان مخصوص موبائل ایپس کے نمائندے انڈیا میں نہیںاور ایپس پر ہونے والی سرگرمیوں کا پتا لگانا مشکل ہے۔‘

اس خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ وادی میں مامور دوسری خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے ایسی تمام ایپس کی فہرست تیار کی گئی جو انڈین قانون کے دائرے میں نہیں آتیں اور جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

انڈیا کی بعض خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ان موبائل ایپس کو ’پاکستان میں شدت پسند کشمیر میں اپنے پیغامات پہنچانے کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہے تھے جنھیں ٹریک کرنا بہت مشکل تھا۔‘

یاد رہے کہ انڈین حکومت نے چند مہینے پہلے تقریاً 230 چینی ایپس قومی سلامتی کے خدشات کے تحت بلاک کی تھیں۔ ان میں 138 جوئے بازی اور 94 قرض دینے والی ایپس شامل تھیں۔

ان ایپس کا تجزیہ کرنے کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے ماہرین نے یہ رپورٹ دی تھی کہ ان ایپس کے ذریعے انڈین شہریوں کی ذاتی تفصیلات تک رسائی حاصل کی جا سکتی تھی۔

گذشتہ برسوں کے دوران انڈیا نے ملک کی سالمیت، دفاع ، نقص امن اور اقتدار اعلی کو نقصان پہنچنے کے خدشات کے تحت سینکڑوں موبائل ایپس پر پابندی عائد کی ہے۔

ان میں سوشل میڈیا، گیمنگ، یوٹیلیٹی اور دیگر تفریحی ایپس جیسے ٹک ٹاک، پب جی، زینڈر، شیئر اِٹ، وی چیٹ، کیم سکینر اور گیرینا فری فائر جیسی ایپس شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹک ٹاک پر پابندی سے انڈیا کو کیا حاصل ہوگا؟

انڈیا نے پاکستانی سٹریمنگ سروس ’وڈلی‘ پر پابندی کیوں لگائی؟

’یہ انٹرنیٹ سینسرشپ ہے‘

مرکزی حکومت نے جن ایپس پر پابندی لگائی ہے ان میں کریپ وائزر، اینگما، سیف سوئس، ویکرمی، میڈیا فائر، برائر، بی چیٹ، نینڈ باکس، کونیئن، آئی آیم آو، ایلیمنٹ، سکنڈ لائن، زینگی اور تھریما شامل ہیں۔

ان میں سے ایک ’زینگی‘ پرائیویٹ میسجنگ کے لیے مشہور ایپس میں سے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ رجسٹریشن کے لیے صارفین کے فون نمبر درج نہیں کرتی۔

کریپ وائزر اور بی چیٹ میں بلاک چین (کرپٹو کرنسی کی ٹیکنالوجی) کے ذریعے صارفین خفیہ پیغامات بھیج سکتے ہیں۔

ویکرمی ایک ایسی میسجنگ ایپ ہے جس کی ملکیت معروف ای کامرس ویب سائٹ ایمازون کی ذیلی کمپنی ایمازون ویب سروسز کے پاس ہے۔ اس فہرست میں فائلز بھیجنے کی ایپ میڈیا فائر بھی شامل ہے۔

برائر نامی ایپ میں صارفین انٹرنیٹ کی عدم موجودگی میں بھی پیغامات بھیج سکتے ہیں، جس کے لیے بلیو ٹوتھ و دیگر فیچر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرز پر ایک ایپ فائر فلائی کو ہانگ کانگ میں حکومت مخالف مظاہروں میں استعمال کیا جاتا تھا۔

اطلاعات کے مطابق نینڈ بوکس پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ اس ایپ کے مطابق یہ صارفین کو اپنے لیے نئی میسجنگ ایپ بنانے کی صلاحیت دیتی ہے۔

اخبار ہندوستان ایکسپریس کے مطابق جن میسجنگ اور کالنگ ایپس پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں اینڈ ٹو اینڈ انکریپشن کی سہولت موجود ہے جس سے پیغام بھیجنے اور موصول کرنے والوں کے پیغامات محفوظ رہتے ہیں۔

انڈیا کے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 69 اے میں حکومت دفاع اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ایسے اقدامات کر سکتی ہے۔

اخبار دی ہندو کی خبر کے مطابق معروف میسجنگ ایپ سنیپ چیٹ پر بھی پابندی کی تجویز کی گئی تھی تاہم اسے اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

جن میسجنگ ایپس پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں سے ایک تھریما کی ترجمان جولیا ویس نے دی ہندو کو دیے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’ہم آزادی اظہار رائے اور رازداری کے انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور ہم نے یہ ایپ سکیورٹی اور پرائیویسی کو مدنظر رکھ کر بنائی۔‘

انھوں نے انٹرنیٹ سینسرشپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈین شہری اسے تسلیم نہیں کریں گے۔۔۔ ہم صورتحال پر نظر رکھیں گے اور ضرورت پڑنے پر قانونی اقدام کریں گے۔‘

برائر پراجیکٹ کے بانیوں میں سے ایک مائیکل راجرز نے دی ہندو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ایپ پر پابندی کے وقت ان سے انڈین حکومت نے کوئی رابطہ نہیں کیا اور انھیں پابندی کا حکمنامہ بھی موصول نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ وہ پابندی کے حکم کو چیلنج کرنے کے لیے ’ڈیجیٹل حقوق کی تنظیموں سے رابطے کر رہے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More