پاکستان میں گندم کی ’شاندار فصل‘ کے بعد کیا عوام کو سستا آٹا بھی ملے گا؟

بی بی سی اردو  |  May 02, 2023

Getty Images

پاکستان میں رواں سال گندم کی پیداوار میں اضافے کے بعد یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک بار پھر اسے ’گندم برآمد کرنے والا ملک‘ بنایا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک حالیہ بیان میں اس سال گندم کی ’شاندار فصل‘ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب اور دوسری معاشی مشکلات کے باوجود حکومت کی جانب سے زرعی شعبے کو دی جانے والی سہولتوں کی وجہ سے یہ یقینی ہو سکا ہے۔

انھوں نے کہا حکومت کا آئندہ ہدف گندم کی ملکی ضرورت پوری کر کے پاکستان کو پھر سے گندم برآمد کرنے والا ملک بنانا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے گندم کی شاندار فصل کا اعلان وفاقی کمیٹی برائے ایگری کلچر کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے کچھ دنوں کے بعد سامنے آیا، جس میں ملک میں گندم سمیت ربیع کی دوسری فصلوں کی پیداوار اور خریف کی فصلوں کے لیے اہداف کا جائزہ لیا گیا۔

اس کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق موجودہ سال میں گندم کی فصل کی پیداوار دو کروڑ 68 لاکھ ٹن رہنے کا تخمینہ ہے جو گذشہ سال کی پیداوار سے 1.6 فیصد زائد ہے۔ وفاقی کمیٹی کے مطابق یہ پیداوار نوے لاکھ ہیکٹر رقبے پر گندم کی فصل کی کاشت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔

Getty Images

پاکستان میں گندم کی زیادہ پیداوار کے بارے میں وفاقی کمیٹی کا اعلامیہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کا ٹویٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ملک میں گندم کی پیداوار کے دو بڑے صوبوں یعنی سندھ میں کٹائی مکمل ہو چکی ہے اور پنجاب میں بھی تقریباً یہ کام مکمل ہو چکا ہے۔

دوسری طرف اس وقت ملک میں آٹے کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں اور اس کی قیمت ملک کے تقریباً تمام حصوں میں سو روپے فی کلو اور کچھ حصوں میں ڈیڑھ سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔

ادھر پاکستان میں گندم کی زیادہ پیداوار کے دعوؤں کے بعد آٹے کی قیمت ایک عام آدمی کے لیے کم ہونے کے امکان کو زراعت اور زرعی اجناس کے ماہرین مسترد کرتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ پیداوار ابھی بھی ملکی ضرورت سے کم ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آٹے کی تجارت مارکیٹ کے اصولوں پر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے عام صارفین کے لیے یہ مہنگی ہوتی ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ زیادہ پیداوار کے باوجود آٹے کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔

Getty Images’بمپر کراپ‘ یا محض اچھی پیداوار؟

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گندم کی زیادہ پیداوار کے بیان میں کتنی حقیقت ہے اور کیا واقعی پیداوار زیادہ ہوئی ہے، اس کے بارے میں پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں گندم کی فصل کی پیداوار اٹھانے والے زمیندار احسان الحق کہتے ہیں کہ رحیم یار خان پاکستان میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ضلع ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سال رحیم یار خان میں گندم کی فصل اچھی ہوئی ہے۔ اپنی فصل کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال ان کی فی ایکٹر پیداوار اوسطاً 45 من تھی جو اس سال ساٹھ من ہے۔

احسان نے بتایا کہ انھیں فی ایکٹر پیداوار گذشتہ سال کی نسبت اس سال زیادہ ملی ہے تو اس حساب سے ان کے لیے فی ایکٹر پر زیادہ کمائی ہوئی ہے۔

پاکستان میں گندم کی پیداوار کا گذشتہ چند سالوں میں جائزہ لیا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ سیزن میں گندم کی پیداوار زیادہ ہوئی ہے تاہم اس کی پیداوار بہت زیادہ ہونے کا دعوے صحیح نہیں۔

گذشتہ چند سال کے حکومتی دستاویز اکنامک سرویز آف پاکستان کے مطابق 2017 کے مالی سال میں گندم کی پیداوار دو کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن تھی۔ 2018 میں یہ دو کروڑ پچاس لاکھ ٹن رہی۔ 2019 میں دو کروڑ 43 لاکھ ٹن، 2020 میں دو کروڑ 52 لاکھ ٹن، 2021 میں دو کروڑ ستر لاکھ ٹن، 2022 میں دو کروڑ 64 لاکھ ٹن اور اس سال اس کا تخمینہ دو کروڑ 68 لاکھ ٹن رہنے کا امکان ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے کچھ زیادہ ہے۔

زراعت کے شعبے کے ماہر محمود نواز شاہ کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے گندم کی پیداوار اس سال تھوڑی زیادہ ہے تاہم یہ پھر بھی اس ہدف سے کم ہے جو حکومت نے اس سال خود مقرر کیا تھا۔

انھوں نے کہا ملک کے بالائی حصوں میں کچھ کٹائی رہتی ہے جس سے ممکنہ طور پر ہدف مکمل ہو جائے تاہم اسے ’اچھی پیداوار‘ تو کہا جا سکتا ہے لیکن ’بمپر یا شاندار فصل نہیں۔‘

ان کے مطابق سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں فصل کاشت نہیں کی گئی یا پھر دیر سے کاشت ہوئی جس کی وجہ سے بہت زیادہ پیداوار حاصل نہیں ہو سکی۔

Getty Images’مہنگی بجلی اور کھاد کے باوجود پیداوار میں اضافہ‘

رواں برس گندم کی زیادہ پیداوار کے بارے میں بات کرتے ہوئے احسان الحق نے کہا اس سال ایک تو وجہ سازگار موسم رہا۔ گذشتہ چند سال میں گندم کی کٹائی کے وقت بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں خراب ہوئیں تاہم اس سال کٹائی کے دوران زیادہ بارش نہیں ہوئی جس کی وجہ سے پیداوار اچھی رہی۔

انھوں نے کہا گذشتہ کپاس کی فصل اچھی حاصل کرنے کی وجہ سے کسان کے پاس اچھا پیسہ آیا جسے گندم کی فصل میں لگایا۔ ’کھاد مہنگی اور بجلی کے نرخ زیادہ ہونے کے باوجود گندم زیادہ ہو گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت زیادہ مقررکرنے کا فائدہ بھی گندم کی زیادہ کاشت کی صورت میں برآمد ہوا۔

انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سندھ نے بروقت اقدام اٹھایا کہ انھوں نے امدادی قیمت کا اعلان پہلے کیا۔ پنجاب نے زیادہ امدادی قیمت کا اعلان بعد میں کیا جو بروقت کیا جاتا تو شاید پیداوار اور زیادہ ہوتی۔

زرعی اجناس کے شعبے کے ماہر شمس الاسلام نے بھی سازگار موسم کو پیداوار میں اضافے کی وجہ قرار دیا تو اس کے ساتھ امدادی قیمت میں اضافے نے بھی اس سلسلے میں کردار ادا کیا۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے فی من تھی جو اس سال سندھ میں چار ہزار روپے فی من اور پنجاب میں 3900 روپے فی من تھی۔

تاہم انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے زیادہ پیداوار کا دعویٰ بہت جلدی کر دیا گیا اور اسے مئی کے مہینے کے بعد یہ اعلان کرنا چاہیے تھا جب پورے ملک میں گندم کی کٹائی مکمل ہو جاتی ہے۔

ان کے مطابق شاید معاشی صورتحال کی وجہ سے حکومت کو اس اعلان کی جلدی تھی۔

Getty Imagesکیا گندم کی زیادہ پیداوار سے آٹے کی قیمت میں کمی آئے گی؟

پاکستان میں گندم کی پیداوار میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملک میں آٹے کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ حکومتی ادارے وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار بھی ملک میں آٹے کی ریکارڈ قیمت میں اضافے کی تصدیق کرتے ہیں۔

ادارے کے مطابق موجودہ سال اپریل کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت گذشتہ سال اپریل کے آخری ہفتے کے مقابلے میں 175 فیصد زیادہ ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں آٹے کی فی کلو قیمت 125 روپے کلو سے 150 روپے کلو تک ہے۔

موجودہ سیزن میں گندم کی پیداوار میں اضافے کے بعد آٹے کی قیمت میں کمی کو ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نئی فصل آنے سے کچھ وقت کے لیے معمولی کمی ہو سکتی ہے تاہم آنے والے مہینوں میں اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ گندم کی تجارت میں مارکیٹ کے اصولوں کی بجائے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

محمود نواز شاہ نے اس امکان کو مسترد کیا کہ گندم کی پیداوار میں تھوڑے سے اضافے سے آٹے کی قیمت میں کوئی کمی ہو گی۔ ان کے مطابق گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے ’حکومت سے آگے کی سوچتے ہیں اور اس کے لیے حکومت کو ابھی سے تدبیر کرنی پڑے گی۔‘

انھوں نے کہا پیداوار اتنی نہیں کہ وہ ملکی ضرورت کو پوری کرے۔ ’پاکستان میں گندم کی کھپت سات سے دس فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے اور اس حساب سے دیکھا جائے تو گذشتہ سال یہ کھپت تین کروڑ تھی تو اس سال تین کروڑ 32 لاکھ ٹن ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت اگست اور اس کے بعد (نئی) گندم مارکیٹ میں لاتی ہے اس کے لیے اسے چاہیے کہ وہ اپنی گندم کو جون جولائی میں مارکیٹ میں لائے تاکہ گندم کی رسد کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے اور جو افراد گندم ذخیرہ کر کے اس کی قیمت بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں، انھیں مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی گندم مارکیٹ میں لے آئیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں گندم کی کم پیداوار، کیا درآمدی گندم سے آٹے کی قیمت بڑھ جائے گی؟

پاکستان میں گندم بحران: جب 25 سے زیادہ افراد کو دعوت پر بلانا ممنوع قرار دیا گیا

’پیسے تو نہیں آئے، بیٹی کی لاش گھر آ گئی‘: کیا پاکستان کی معاشی صورتحال فلاحی اداروں کی کمر توڑ رہی ہے؟

شمس الاسلام نے بھی آٹے کی قیمت میں کمی کے امکان کو مسترد کیا۔ انھوں نے کہا اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت خود ہے کہ انھوں نے گندم کی امدادی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا کہ اب جو گندم حکومت خود خریدے گی وہ بھی مہنگی ہوگی۔

انھوں نے کہا گذشتہ سال 2200 روپے فی من سے امدادی قیمت 4000 روپے فی من ہو گی۔ کل اخراجات ملا کر کاشتکار کا فی من خرچہ 2500 روپے آتا ہے اب جب وہ بہت زیادہ نرخ پر حکومت کو گندم بیچ رہا ہے تو لازمی طور پر آٹے کی قیمت بھی زیادہ ہو گی۔

شمس نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں سے گندم کی تجارت میں ملوث ’کارٹل ار مافیاز‘ کے بھی اتنے مضبوظ ہو گئے ہیں کہ وہ مارکیٹ سے گندم اٹھا کر اسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پھر مارکیٹ کو کنٹرول کر کے آٹے کا بحران پیدا کرتے ہیں اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

شمس نے کہا کہ آٹے کی قیمت پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے حکومت کو اس امدادی قیمت کے فارمولے سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ یہ قیمت بڑھا کر حکومت آٹے کی زیادہ قیمت کے امکان کو ہوا دیتی ہے اور اس کے ساتھ اسے کچھ انتظامی اقدامات کے ذریعے بھی صورتحال کو مؤثر طور پر سنبھالنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔

Getty Imagesکیا پاکستان کو گندم درآمد نہیں کرنا پڑے گی؟

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں میں کہا گیا کہ حکومت کا آئندہ ہدف ملکی ضرورت پوری کر کے گندم کو برآمد کرنے والا ملک بننا ہے۔

پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے ملکی ضرورت کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کرتا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان نے جولائی سے مارچ کے درمیان تقریباً ایک ارب ڈٓالر کی گندم درآمد کی جو گذشتہ سال کے ان مہینوں کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے جلد گندم برآمد کرنے والے ملک کا ہدف فی الحال خارج از امکان ہے۔ ابھی تو پاکستان کو گندم امپورٹ کرنے والے ملک کی کیٹگری سے نکلنا ہوگا، یعنی اتنی گندم پیدا کرنی ہوگی جو مقامی سطح پر ضرورت پوری کرسکے۔

محمود نواز شاہ نے کہا کہ اس سال بھی پاکستان کو گندم درآمد کرنی پڑے گی جس کی وجہ کھپت کا سات فیصد سے زیادہ بڑھنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اندازوں کے مطابق اس سال کھپت تین کروڑ ٹن سے زیادہ رہے گی جبکہ پیداوار کو اگر دو کروڑ ستر یا اسی لاکھ ٹن بھی مان لیا جائے تو پھر بھی گندم درآمد کرنی پڑے گی۔

شمس الاسلام بھی اس سال گندم کی درآمد کے قوی امکان سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان کے مطابق جب آٹے کا بحران پیدا کر دیا جاتا ہے تو حکومت کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ درآمد کے ذریعے مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کو مستحکم رکھا جا سکے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More