انڈیا: تین برس تک لاپتہ رہنے والی خاتون کے قتل کی کہانی، جنھیں زندہ دفن کر دیا گیا تھا

بی بی سی اردو  |  May 01, 2023

’انھوں نے ایک خاتون کے تین سال پرانے پراسرار قتل کا معاملہ حل کر لیا ہے۔ پولیس کمشنر نے آج ہم (میڈیا) سے ملاقات کی جس کی وجہ سے مجھے دفتر پہنچنے میں دیر ہو گئی۔‘

یہ بات ایک رپورٹر نے اپنے بیورو چیف سے 28 مارچ سنہ 1994 کو رات گئے بنگلور کے ایک نیوز روم میں داخل ہوتے ہوئے کہی تھی۔

جب رپورٹر نے کیس سے متعلق مزید معلومات دینی شروع کی تو بیورو چیف اندازہ لگانے لگے کہ یہ کہانی کتنی بڑی ہو سکتی ہے۔

رپورٹر نے بتایا کہ ’وہ میسور کے دیوان کی نواسی ہیں۔‘

بیورو چیف نے پوچھا: کون سے دیوان؟

رپورٹر نے جواب دیا: ’سر مرزا اسماعیل۔‘

سر مرزا اسماعیل نہ صرف سنہ 1926سے سنہ 1941 تک میسور کے دیوان رہے تھے اور انھوں نے بنگلور اور میسور کو سجانے کا کام کیا تھا بلکہ انھوں نے قلعہ کے باہر جے پور بھی تعمیر کرایا تھا۔ انھوں نے 1942 اور 1946 کے درمیان سیاحت کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کا کام بھی کیا تھا۔

پاکستان سے ان کی وابستگی پر نظام کے ساتھ اختلاف رائے کے سبب حیدرآباد کے دیوان (48-1947) کے طور پر ان کا کریئرختم ہو گیا۔

یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں معلوم ہوا کہ دیوان کی ایک نواسی بھی تھی جن کا نام شاکرہ خلیلی تھا۔ ان کی شادی پہلے اکبر خلیلی سے ہوئی تھی، جو انڈیا میں فارن سروس کے ایک افسر تھے اور ایران اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں انڈیا کے سفیر اور ہائی کمشنر کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ وہ مشرق وسطیٰ کے امور کے بھی ماہر بھی تھے۔

گمشدگی کی شکایت تین سال پرانی تھی

پولیس نے فخر سے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے شاکرہ کی بیٹی صبا خلیلی کی طرف سے تین سال قبل درج کرائی گئی گمشدگی کی رپورٹ کو حل کر لیا ہے۔

پولس کمشنر پی کودنڈارامیّا نے اس رات میڈیا کو بتایا تھا کہ ’میں پہلی بار اس خاتون سے اس وقت ملا تھا جب وہ پولیس سے اپنی والدہ کی گمشدگی کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہ کرنے پر چیختے ہوئے میرے دفتر آئی تھیں۔‘

شکایت کنندہ صبا خلیلی نے دفتر پہنچ کر زور زور سے چیخنا شروع کر دیا تھا اور پھر پولیس کمشنر پی کودنڈارامیّا اور دیگر عملے کے سامنے زور زور سے رونے لگی تھیں۔

پھر پرسکون ہونے کے بعد انھوں نے اپنی ماں کی کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ کس طرح پچھلے تین سال سے ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

13 اپریل سنہ 1991 کو شاکرہ خلیلی اپنی والدہ گوہر تاج سے ملی تھیں۔ چھ دن بعد صبا کی ان سے ملاقات ہوئی۔ شاکرہ کے گھر کی ملازمہ جوزفین اور ان کی مدد کرنے والے راجو نے انھیں28 مئی 1991 کو دیکھا تھا۔ یہ آخری بار تھا جب کسی نے شاکرہ کو دیکھا۔

صبا اپنی ماں تک پہنچنے کی جو کوششیں کر رہی تھیں، اسے روکنے کا کام سوامی شردھا نند عرف مرلی منوہر مشرا نے کیا۔ شاکرہ نے اکبر خلیلی سے طلاق کے بعد شردھانند سے شادی کر لی تھی۔

وہ جب بھی ممبئی سے فون کرتی تھیں تو شردھا نند انھیں کوئی نہ کوئی کہانی سنانے لگتے تھے۔ کبھی کہتے کہ شاکرہ ایک بڑے ہیروں کے سوداگر کی شادی میں شرکت کے لیے گئی ہوئی ہیں، کبھی کہتے کہ وہ امریکہ کے کسی مشہور ہسپتال گئی ہوئی ہیں، یا کبھی وہ کہانی سناتے کہ بہت زیادہ جائیداد ہونے کی وجہ سے انھیں محکمہ انکم ٹیکس کا ڈر ہے اور وہ سامنے آنا نہیں چاہتیں۔

صبا کو شردھانند پر شک و شبہ ہونے لگا اور انھوں نے شردھانند کو ہی اپنی ماں کی گمشدگی کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔

اپنے والد اکبر خلیلی سے طلاق کے بعد صبا واحد بیٹی تھی جو اکثر اپنی ماں سے ملنے بنگلور آتی تھیں۔ شاکرہ نے شردھا نند سے شادی کے بعد اپنی دیگر چار بیٹیوں اور اپنے خاندان سے تعلقات توڑ لیے تھے۔

رام پور کی بیگم نے جب شردھانند کو اس خاندان سے ملوایا تھا تو شردھانند رچمنڈ روڈ پر واقع ان کے بنگلے میں رہنے کے لیے آئے تھے کیونکہ وہ جائیداد کے معاملات دیکھتے تھے اور ان کی جائیدادوں سے متعلق کچھ معاملات کو سلجھا بھی چکے تھے۔

ان دنوں اکبر خلیلی ایران میں کام کر رہے تھے اور ان ممالک کے اندرونی حالات کی وجہ سے اکثر سفارت کار اپنے اہلخانہ کو ساتھ نہیں لے جا پاتے تھے۔ وقت کے ساتھ شردھا نند شاکرہ کے قریب آ گئے۔

شردھانند جانتے تھے کہ شاکرہ کو ایک بیٹا چاہیے اور وہ ان کی یہ چاہ دیوانگی کی حد تک تھی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس کچھ طاقتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔

گمشدگی کی شکایت کی تحقیقات اس وقت آگے بڑھی جب پولس کمشنر پی کودنڈارمیّا نے اس معاملے کو سی سی بی (سنٹرل کرائم برانچ) کو سونپ دیا۔

سی سی بی کے لیے پریشانی

آپ کی ٹیم میں سے کس نے یہ مسئلہ حل کیا؟ اس رپورٹر سے فون پر بات کرتے ہوئے پولس کمشنر پی کودنڈرمیا نے اس سوال پر دل کھول کر ہنستے ہوئے کہا کہ ’میڈیا میں آپ کے ساتھی مجھے مار ڈالیں گے۔‘

اس وقت کودنڈارمیا کے ساتھی پریس کانفرنس کی رپورٹ لکھ رہے تھے۔

سی سی بی کی ٹیم سراغ کی تلاش میں کافی عرصے سے محنت کر رہی تھی۔ پولیس کانسٹیبل مہادیو نے ایک پرانی اور آزمودہ چال یاد آئی۔

کودنڈارمیا نے رپورٹر کو بتایا کہ ’وہ شاکرہ کے گھر کے ملازم کو بریگیڈ روڈ پر واقع ایک مشہور مقام پر شراب پلانے کے لیے لے گيا۔ (ان دنوں وہاں دیسی شراب بیچی جاتی تھی جسے عرق کہا جاتا تھا) وہ نشے میں دھت تھا اور پولیس نے اس پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس معاملے میں کسی نہ کسی طور شردھانند شامل ہیں۔‘

کافی شراب پینے کے بعد راجو نے پولیس کانسٹیبل مہادیو کو بتایا کہ بنگلے کے پیچھے ایک چھوٹے سے مکان کے بیڈ روم کے سامنے زمین میں گڑھا کھودا گیا۔ اسے اس طرح بنایا گیا تھا کہ اس میں پانی بھرا جا سکے۔ اس کے بعد شیواجی نگر میں ایک بڑا بکسہ بنا کر گھر لایا گیا۔ اس بکسے میں پہیے لگائے گئے تھے تاکہ اسے آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکے۔

برسوں بعد راجونے ایک ساتھی کو بتایا کہ ’میں نے گیسٹ ہاؤس سے اس بکسے کو لانے کے لیے چار آدمیوں کو بلایا تھا۔‘

تفتیش کرنے والے افسر ویریا نے بعد میں اس رپورٹر کو بتایا کہ شردھا نند نے سینٹ مارکس روڈ پر واقع بینک کے لاکرز تک رسائی کے لیے شاکرہ کی طرف سے دیے گئے جنرل پاور آف اٹارنی کا استعمال کیا۔

ویریا نے بتایا کہ ’وہ کئی بار بینک گئے۔ شاکرہ نے مئی 1991 میں اپنی تمام جائیدادوں کے جوائنٹ اکاؤنٹ ہولڈر سے شردھانند کا نام نکال دیا تھا کیونکہ شاکرہ کو ان کے ارادوں پر شک ہونے لگا تھا۔ یہ ان کے لاپتہ ہونے سے پہلے کی بات ہے۔‘

بنگلور کے معروف فوجداری وکیل سی وی ناگیش کو اس معاملے میں سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں طاعون کے ٹیکے سے سوتیلے بھائی کا قتل جس نے عالمی توجہ حاصل کی

امیر فرانسیسی بیوہ اور مراکش کا مالی: ایک پراسرار قتل کیس 30 سال بعد دوبارہ زندہ کیوں ہو گیا؟

ماں نے بیٹی کے مبینہ قاتل شوہر کو 15 برس بعد کیسے ڈھونڈ نکالا؟

پولیس کو پتا چلا کہ شردھا نند نے اس گھر جہاں وہ اور شاکرہ رہتے تھے، کے علاوہ تمام جائیدادیں ایک بڑی رقم میں فروخت کرنے کا معاہدہ کر لیا تھا۔

اس رپورٹر نے پوچھا کہ یہ سودا کتنے میں ہوا تھا اور کتنی بڑی رقم تھی؟

کودنڈارمیا نے کہا کہ ’اپنی کرسی سے مت گر جانا، یہ تقریباً سات کروڑ روپے کا تھا (بنگلورو میں جائیداد کی قیمتیں اس وقت تک آسمان کو نہیں چھو رہی تھیں یہ دور اس کے کئی سال بعد آیا)۔

شردھا نند سے پولیس نے پوچھ گچھ کی جس میں اس نے شاکرہ کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔

’شاکرہ کو زندہ دفن کیا گیا تھا‘

قتل کا اعتراف کرنے کے بعد شردھا نند پولیس کو جائے واردات پر لے گیا۔

ویریا نے بتایا کہ ’اس نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں اس نے لکڑی کے ڈبے کو دھکیل دیا تھا، جس میں پہیے تھے۔ وہ ہر روز اپنی بیوی کے لیے چائے بناتا تھا اور اس چائے میں نیند کی گولیاں ملا دی تھیں۔‘

ویریا نے رپورٹر کو بتایا کہ ’اس کے بعد اس نے اسے گدے کے ساتھ باکس میں دھکیل دیا اور اوپر سے ڈھکن کو ٹھوک کر بند کر دیا۔ اس نے خود سونے کے کمرے میں کھڑکی کے نیچے کی دیوار توڑ دی، جس کے بعد اس نے باکس کو کھلے گڑھے میں پھینک دیا۔ اس نے یہ گڑھا پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔‘

اس نے شاکرہ کو زندہ دفن کر دیا تھا۔ فرانزک ٹیم کو اس کے شواہد مل گئے تھے۔

پریس کانفرنس کے دو دن بعد شردھا نند کو گھر لے جایا گیا۔ یہاں پہنچ کر اس نے گڑھے کو ڈھانپنے والے پتھروں پر چاک کے ایک ٹکڑے سے نشان لگایا جہاں اس نے باکس کو دھکیل دیا تھا۔

پولیس ٹیم نے باکس کو کھولا اور اس میں کھوپڑی کے ساتھ انسانی ڈھانچہ ملا۔ یہ فرانزک سائنس لیبارٹری کے سامنے شناخت کے لیے ایک اہم ثبوت تھا۔

کرینیوفیشل تکنیک کی مدد سے شاکرہ کی تصویر کھوپڑی پر لگائی گئی۔ اس تصویر کی توثیق خاندان کے افراد اور دیگر افراد نے کی اور وہ در اصل شاکرہ ہی نکلی۔

ڈی این اے فنگر پرنٹنگ نے بھی لاش کے شاکرہ کی ہونے کی تصدیق کی۔ ان کی والدہ گوہر تاج نے شاکرہ کی انگلیوں میں انگوٹھیوں کی شناخت کی۔

کرناٹک حکومت نے شہر کے سرکردہ فوجداری وکلا میں سے ایک سی وی ناگیش کو خصوصی پبلک پراسیکیوٹر مقرر کیا۔

سیشن کورٹ نے 21 مئی سنہ 2005 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ اس دن عدالت کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ناگیش نے کہا کہ ’جج نے استغاثہ کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے ملزم کو سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔‘

عدالت کے باہرصبا نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا کہ ’یہ میری ماں کی موت کا معاوضہ نہیں، میں اپنی ماں کو واپس حاصل نہیں کر سکتی لیکن انصاف ہو گیا۔‘

کرناٹک ہائیکورٹ نے 20 ستمبر سنہ 2005 کو سزائے موت کی توثیق کر دی۔ جسٹس ایس آر بنور مٹھ اور جسٹس اے سی کابن کے بینچ نے لکھا کہ ’مجرم کا اپنی بیوی کو قتل کرنے کا واحد مقصد اس کے قیمتی اثاثوں کا استعمال کر کے خود کو مالا مال کرنا تھا۔ میری رائے میں، یہ کیس شاذ و نادر میں سے ایک کے زمرے میں آتا ہے۔‘

سپریم کورٹ کی دو بینچ والی عدالت نے ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف اپیل کی سماعت بھی کی۔ کل آٹھ ججوں نے کیس کی سماعت کی اور ملزم کو مجرم قرار دیا۔

آخری مرحلے پر جا کر ایک جج نے محسوس کیا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ اہم بات یہ تھی کہ شردھا نند کو زندگی بھر جیل سے رہا نہیں کیا جائے گا۔

شردھانند کی عارضی پیرول حاصل کرنے کی کوششوں کو تین دن پہلے سپریم کورٹ کی بینچ نے دوبارہ مسترد کر دیا تھا جس میں جسٹس کے ایم جوزف، بی وی ناگرتنا اور اشان الدین امان اللہ شامل تھے۔

شاکرہ خلیلی کی کہانی کو اب ایک او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر کرائم سیریز ’ڈانسنگ آن دی گریو‘ کے نام سے تیار کیا گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More