الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات: حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان اتفاق پیدا ہونا مشکل کیوں؟

بی بی سی اردو  |  May 01, 2023

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے گھر چھاپے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت نے حکومت سے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں لانگ مارچ کی حکمت عملی بنا لی ہے اور یوں الیکشن کے معاملے پر بات چیت کے ذریعے حل نکلنے میں مزید مشکلات حائل ہو گئی ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی جماعت پرویز الہی کے گھر پر حملے اور ان کے کارکنان کی گرفتاری کے باوجود حکومتی اتحاد سے مذاکرات جاری رکھے گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ورکرز اور رہنماؤں کی جانب سے ’شدید تحفظات‘ کا اظہار کیا گیا ہے مگر ان کی جماعت سپریم کورٹ کی ہدایات کا احترام کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا عمل ’طویل المدتی اور لامتناہی ‘ نہیں ہو سکتا اور یہ کہ حکومتی اتحاد کو جلد فیصلہ کرنا ہو گا۔

ادھر بعض حکومتی وزرا، جو مذاکراتی کمیٹی کا حصہ نہیں، نے پہلے سے ہی بات چیت ناکام ہونے کی پیشگوئی کر رکھی ہے۔ جیسے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ روز کہا کہ بہتر ہوگا اگر تحریکِ انصاف احتجاج کرے تاکہ یہ مذاکرات تو ختم ہوں۔

خیال رہے کہ حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور منگل کو ہو گا۔ دونوں طرف سے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منگل کو انتخابات کے معاملے پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

بات چیت کے آغاز سے ہی دونوں جانب ’اعتماد کی کمی‘ واضح ہے اور دونوں طرف شکایت ہے کہ فریقین بات چیت کے لیے ’سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔‘

Reutersشاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی جماعت پرویز الہی کے گھر پر حملے اور ان کے کارکنان کی گرفتاری کے باوجود حکومتی اتحاد سے مذاکرات جاری رکھے گی’ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف گرفتاریاں‘

مذاکرات کے پہلے روز اسحاق ڈار، یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کی اور کہا کہ فریقین نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔

بات چیت کا دوسرا دور 28 اپریل کو ہوا جس کے بعد حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں شامل پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما اسحاق ڈار نے کہا کہ مذاکرات میں دو تجاویز سامنے آئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ایک تجویز ہماری طرف سے اور دوسری تجویز ان کی (پی ٹی آئی) طرف سے ہے۔ یہ طے ہوا ہے کہ آج کی پیشرفت دونوں فریق اپنی اپنی قیادت کے سامنے پیش کریں گے‘۔

تاہم اس وقت جبکہ یہ بات چیت جاری تھی، پاکستان تحریک انصاف کے بعض کارکنان کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں انھیں رہا کر دیا گیا۔

حالات اس وقت کشیدہ ہوئے جب لاہور میں پولیس اور اینٹی کرپشن کی ٹیم نے سابق وزیر اعلی پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری پرویز الہی کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔

رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری نے پرویز الہی کے گھر پر پولیس چھاپے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کر رہی ہے تو دوسری طرف گرفتاریاں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

شاہ محمود قریشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے کارکنان کی گرفتاریوں اور انھیں ہراساں کرنے کا معاملہ مذاکراتی کمیٹی کے سامنے بھی اٹھایا ہے جبکہ پرویز الہی کے گھر چھاپے سے متعلق ان کا ’اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اسحاق ڈار نے کہا کہ اس معاملے سے وفاق کا تعلق نہیں، یہ پنجاب حکومت نے کیا ہے جبکہ پنجاب حکومت انکاری ہے۔‘

وہ پوچھتے ہیں کہ ’تو یہ سب کون کر رہا ہے؟ کون چاہتا ہے کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں۔ اس کا فیصلہ اسحاق ڈار نے کرنا ہے، انھوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔‘

Getty Images اسحاق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں دو تجاویز سامنے آئی ہیں فریقین کے درمیان ’عدم اعتماد شدت کے ساتھ موجود‘

تحریک انصاف کی قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ بات چیت کے دوران پرویز الہی کے گھر چھاپے سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے افراد کی بظاہر اپنی حکومت میں کوئی حیثیت نہیں۔

شاہ محمود قریشی یہ مانتے ہیں کہ فریقین کے درمیان ’عدم اعتماد شدت کے ساتھ موجود ہے اور اس کی وجہ خود پی ڈی ایم اتحاد میں شامل دراڑیں ہیں۔ حکومتی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مولانا فضل الرحمان جو اس اتحاد کے صدر ہیں وہ مذاکرات کے حق میں نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ملک کے وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رکن خواجہ آصف آج بھی مذاکرات اور اس ٹیم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ تو حکومتی اتحاد تو سنجیدہ نہیں لگ رہا مگر ہم بات چیت کریں گے کیونکہ ہم آئین کے تحت مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف بالکل احتجاج کرے تاکہ یہ مذاکرات تو ختم ہوں۔ خواجہ آصف کا مذاکرات سے متعلق مزید کہنا تھا کہ ’پتا نہیں جائز طریقے سے بٹھایا گیا ہے یا ناجائز طریقے سے۔ یہ تو ہم اہتمامِ حجت کر رہے ہیں۔‘

ادھر سابق وزیر اعظم عمران خان نے یکم مئی کو ’آئین بچاؤ‘ ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ’14 مئی سے پہلے اسمبلی تحلیل ہوئی تو ہم پورے پاکستان میں الیکشن کے لیے تیار ہیں۔‘

ایسے میں مذاکرات کیا رخ اختیار کریں گے، کیا ان سے کسی ٹھوس نتیجے کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ اس بارے میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین اور وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے جواب نہیں دیا تاہم تجزیہ کار اس صورتحال سے زیادہ پُرامید نظر نہیں آتے۔

PTIتحریک انصاف کی قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ بات چیت کے دوران پرویز الہی کے گھر چھاپے سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے افراد کی بظاہر اپنی حکومت میں کوئی حیثیت نہیںبجٹ سے پہلے یا بعد میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا سوال

سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی حکومتی پریشانی کو آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک معاہدہ حتمی نہ ہونے سے جوڑتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ حکومتی اتحاد کو امید تھی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے ہوجائے گا اور حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو جائے گی جو انتخابات میں جانے سے پہلے ضروری اقدام ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ صورتحال سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف دونوں ہی چاہتے ہیں کہ الیکشن ایک دن ہوں۔ عمران خان دو صوبائی اسمبلیوں میں کسی کو وزیراعلیٰ بنانے پر تو کام نہیں کر رہے تھے، وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ نیشنل ایکشن ہو۔‘

عاصمہ کی رائے ہے کہ ’اختلاف انتخابات کی تاریخ پر تھا۔ اس دوران حکومت کے لیے معاشی تنزلی بڑا مسئلہ بن گیا۔ حکومت کا خیال تھا کہ آئی ایم ایف ڈیل فائنل ہو جائے گی تو وہ ایک اچھا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور عوام کو ریلیف دیں گے مگر فی الحال ایسا ہونا مشکل ہے۔‘

’آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط پوری ہونے کے باوجود کیوں تاخیر ہے؟ اگر تو یہ تمام معاملہ انتخابات کے ساتھ مشروط ہو گیا تو یہ یقیناً موجودہ حکومت کے لیے ایک مشکل صورتحال ہے اور اگر یہ معاملہ مقامی سطح سے اٹھ رہا ہے جیسا کہ مذاکرات کے عمل کے دورانپرویز الہی کے گھر چھاپے پر وفاقی اور پنجاب حکومت دونوں ہی لاتعلق نظر آتے ہیں تو پھر یہ کون ہے جو یہ سب کر رہا ہے؟‘

تاہم انھوں نے اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی کردار کو رد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک انصاف کا حکومت سے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں لانگ مارچ کا عندیہ

پاکستان میں ’الیکشن کا سوال‘: کیا سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہی اس بحران کا حل ہے؟

کیا حکومت پارلیمان کی مدد سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد سے بچ سکتی ہے؟

اس بارے میں جب بی بی سی نے وزیر دفاع خواجہ آصف سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکراتی کمیٹی کا حصہ ہیں نہ ہی اس عمل میں شامل ہیں، ’لہذا ان معاملات پر میری معلومات پختہ نہیں ہو سکتی ہیں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ستمبر میں بھی انتخابات پر اتفاق ہوتا ہے تو اس سے پہلے حکومت کو اسمبلیاں تحلیل کرنا ہوں گی جو بجٹ سے پہلے ممکن نہیں اور بجٹ میں ریلیف دینا بھی حکومت کے لیے ممکن نظر نہیں آ رہا۔

خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ کے بعد اسمبلی کی تحلیل کی تجویز کو بدنیتی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔

social mediaپورے ملک میں الیکشن ایک دن کرانے کے لیے ’لچک دکھانا ہو گی‘

اس معاملے پر یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی یہ بھی بات کرنے کو تیار ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن کی مدت سے متعلق نئی قانون سازی کی جائے تاہم پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی گئی۔

شاہ محمود قریشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومتی اتحاد کو ایک ایسی تجویز دی ہے جس سے ان کے لیے الیکشن ایک دن کرانے کی شرط پوری ہوتی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کمیٹی اپنی قیادت سے مشاورت کے بعد منگل کو ہمارے پاس کیا جواب لاتی ہے تاہم وہ تجویز کیا ہے، یہ میں اس موقع پر نہیں بتا سکتا۔‘

دوسری جانب چین کے ساتھ حالیہ معاہدوں اور خاص طور پر آرمی چیف کے دورہ چین کو بھی ایک اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے صحافی سمجھتے ہیں کہ مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحاد کی کوشش ہے کہ بجٹ سے پہلے ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے بعد ایک مضبوط اتحاد کے طور پر انتخابات میں جا سکیں۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اگر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کریں تو اس مسئلے کا سیاسی حل نکالا جا سکتا ہے۔

عاصمہ شیرازی کے مطابق حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف دونوں کو ہی لچک دکھانا ہو گی۔ ’عمران خان کا اسی بات میں فائدہ ہے کہ الیکشن جلد ہو جائیں جبکہ حکومت کے لیے اس بات میں فائدہ ہے کہ انھیں دو تین مہینے مل جائیں تاکہ وہ اس دوران عوام کو کچھ ریلیف دے کر انتخابات میں جائیں۔ سو حکومت کو بھی لچک دکھانی چاہیے اور عمران خان بھی عدالت میں جانے کی بجائے سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔‘

تاہم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ وہ منگل کو حکومتی کمیٹی سے جواب لینے کی بجائے سپریم کورٹ کو پیشرفت سے متعلق آگاہ کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More