مہر حسین: اپنی کتاب کا مواد لیک ہونے سے پبلشر بننے تک کا سفر

بی بی سی اردو  |  Apr 30, 2023

’میں نے اپنے حالاتِ زندگی پر انگریزی میں شاعری کی کتاب چھپوانا چاہی تو مجھے کئی پبلشرز نے کہا کہ ’یہ کیا ہے، یہ نہیں چھپ سکتی۔ آپ کہاں سے خواتین کے ذہنی صحت کے مسائل لے کر آ گئی ہیں۔ عشق و محبت پر شاعری کریں‘۔‘

یہ سن کر شاعرہ اور مصنفہ زہرا حمید مایوس ہوگئیں۔ پھر ان کی ملاقات صحافی، ادیب اور پبلشر مہر حسین سے ہوئی جنھوں نے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی کتاب ’دی برنگ چمپا‘ شائع بھی کی جو ان کے بقول ’خوب فروخت ہو رہی ہے۔‘

زہرا حمید نے ’دی برنگ چمپا‘ میں اپنی زندگی کے حالات اور مشکلات کا شاعری کی زبان میں احاطہ کیا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ میں اس سب کا اظہار شاعری کی زبان میں کرتی ہوں۔ جس سے لوگوں کو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ مگر یہ اتنا آسان ثابت نہیں ہوا، ہر ایک پبلشر نے کہا کہ یہ تو ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنا تھوڑا ممکن نہیں ہے۔‘

مہر حسین کو انٹرنیشنل پبلشرز ایسوسی ایشن (آئی پی اے) نے اظہار رائے کی آزادی اور متنازع سمجھے جانے موضوعات پر کتابیں چھاپنے اور لکھنے پر ’آئی پی اے پرکس والٹیئر ایوارڈ 2023‘ کے لیے شارٹ لسٹ کیا ہے۔

اس ایوارڈ کے لیے پاکستان سے مہر حسین کے علاوہ مصر، عراق، آئرلینڈ اور ترکی سے تعلق رکھنے والے ادارے اور لکھاری شارٹ لسٹ ہوئے ہیں۔

مہر حسین پبلشنگ کا ادارہ ’ذوقا بُکس‘ چلا رہی ہے۔ انھوں نے اس ادارے کی بنیاد بھی انتہائی مشکل حالات بلکہ اس وقت مجبور ہو کر رکھی تھیں جب فیشن کے موضوع سے متعلق ایک کتاب کو پاکستانی پبلشرز نے چھپانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’پبلیشر کہتے تھے کہ فیشن شو کرنا اور کتاب لکھنا دو مختلف باتیں ہیں۔ یہہماری روایات کے خلاف ہے۔ اس سے لوگ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘

آئی پی اے پرکس والٹیئر ایوارڈ کیا ہے؟

پبلشرز کی بین الاقوامی تنظیم’ آئی پی اے‘ ہر سال ایسے رائٹرز (لکھاریوِں) اور اداروں کو ایوارڈ سے نوازتی ہے جو معاشرے میں متنازع سمجھے جانے والے موضوعات پر لکھتے ہیں اور اظہار رائے کا تحفظ کرنے کی اس کوشش کے دوران جنھیں مختلف مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایوارڈ ہر سال دیا جاتا ہے۔

آئی پی اےکی ’فریڈم ٹو پبلش کمیٹی‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سنہ 2023 کے ایوارڈ کے لیے ایسے پبلشرز کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے جنھوں نے خود کو خطرے میں ڈال کر پڑھنے والوں کو مختلف اور متنوع رائے اور نقطہ نظر پڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ایوارڈ کا حتمی اعلان ورلڈ ایکسپریشن فورم (ڈبیلو ای ایکس ایف او) ناروے میں آئندہ ماہ (22 مئی) کو کیا جائے گا۔

آئی پی اے پرکس والٹیئر ایوارڈ درحقیقت فرانس کے لکھاری، فلاسفر اور پبلشر فرانسیو ماریا اورنٹ جو کہ فرضی نام والٹیئر استعمال کرتے تھے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے۔

والٹیئر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے 17وی صدی میں پہلی مرتبہ رواداری اور آزادی اظہار رائے کا نظریہ پیش کیا تھا، جس میں انھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مہر حسین کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں اپنا کوئی پبلشنگ کا ادارہ بنا کر کتابیں شائع کروں گی۔

’یہ فیصلہ اس وقت کیا جب مجھے لگا کہ اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک میرا اپنا ادارہ نہیں ہو گا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ کوئی اتنا آسان نہیں تھا۔ ناقابل بیان مشکلات اور مسائل سے گزرنا پڑا تھا۔‘

’کتاب کا مواد لیک کر دیا گیا‘

مہر حسین کی اپنی پہلی کتاب شائع کرنے کی کہانی زہرا حمید کی کہانی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ جب مہر کی کتاب چھاپنے سے انکار کر دیا گیا تو انھوں نے اپنی کتاب کو خود چھاپنے کا فیصلہ کر لیا۔

مہر حسین کہتی ہیں کہ ’میں طویل عرصہ سے بطور صحافی خدمات سر انجام دینے کے علاوہ لکھاری بھی ہوں۔ اس وقت فرائیڈے ٹائمز اور ’نیا دور‘ میں نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ چند سال قبل میں نے اپنے ساتھی لکھاری سرفراز شیخ کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ ہمیں پاکستان کے فیشن پر کتاب لکھنی چاہیے۔‘

’اس کے لیے ہم نے دور دراز کے سفر کیے۔ ہم نے پرانا ریکارڈ اکٹھا کیا، جس میں کچھ تصاویر وغیرہ بھی تھی۔ قصہ مختصر بہت محنت کے بعد ہم نے مواد اکٹھا کیا اور اس کو لے کر جب میں پبلشرز کے پاس گئی تو تمام پبلشرز نے اسے شائع کرنے سے انکار کر دیا۔‘

’ایک پبلشر نے کہا کہ تصاویر نہیں چھپ سکتیں۔ میں نے کہا کہ یہ تصاویر تو مختلف فیشن شوز کی ہیں۔ میں نے خود نہیں بنائیں۔ ایک اور پبلشر نے مجھے کہا کہ کتاب کے مواد میں سے فلاں فلاں چیزیں ہٹا دیں تو اسے شائع کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ پبلیشر کہتے تھے ’فیشن شو کرنا اور کتاب لکھنا دو مختلف باتیں ہیں۔‘فیشن پر کتاب چھاپنے سے اس لیے انکار کیا جا رہا تھا کہ یہ ’ہماری روایات کے خلاف ہے۔‘

مہر حسین کا کہنا تھا کہ ’میں ایک بڑے قومی ادارے کے پاس گئی تو انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایف میں ہمیں کتاب کا مواد دیں۔ ان کو مواد دیا تو وہ مواد لیک کر دیا گیا ہے۔ جس پر میں نے احتجاج کیا اور بات قانونی کارروائی تک پہنچی۔ انھوں نے معذرت کر لی۔‘

’لیک کی گئی پی ڈی ایف فائل میں مواد دیکھنے کے بعد ایک ڈائریکٹر نے مجھے بلا کر کہا کہ اس کتاب میں میرا ذکر کم کیا گیا ہے۔ جس پر مجھے بہت تعجب اور دکُھ ہوا کہ یہ کیسی سوچ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کتاب کے لیے مواد اکٹھا کرنا مشکل کام تھا۔ مگر اب پتا چلا کہ آپ اگر کسی نئے موضوع پر بات کریں تو اس پر لکھنا بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ جس پر فیصلہ کیا کہ ہمت تو نہیں ہارنی اس لیے اپنی کتاب خود چھاپنے کا فیصلہ کر لیا۔‘

’پرنٹر کے پاس گھنٹوں بیٹھی رہتی تھی‘

مہر حسین نے خود اپنا پبلشنگ ہاؤس بنانے کا فیصلہ کیا۔ ’اس کے لیے سب سے پہلی اپنی پبلشنگ کمپنی ’ذوقا بُکس‘ رجسڑ کروائی۔ یہ میرے دونوں بیٹوں ذوالفقار اور قاسم کے نام پر ہے، اس کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور یہ سب کرنے کے بعد اب کتاب چھاپنے کا مرحلہ درپیش تھا۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ اس کام کے لیے وہ لاہور میں بچوں کو سکول سے لے کر پرنٹر کے پاس چلی جاتی تھیں۔ ’بچے گاڑی میں بیٹھے رہتے اور وہاں بہت رش ہوتا تھا اور میں واحد خاتون ہوتی تھی۔ وہاں پر لوگ کہتے کہ یہ خاتون کیا کر رہی ہیں یہاں۔ مجھے بہت سی چیزوں کا پتا بھی نہیں تھا جو میں نے چھاپہ خانے میں سیکھیں۔‘

مہر حسین کہتی ہیں کہ ’کبھی کتاب کے لیے کاغذ حاصل کرنے کے مراحل اور کبھی پروف ریڈنگ کے مسائل۔ کبھی ایک صاحب کام وقت پر نہ دیتے تو کبھی دوسرے۔ مگر بلآخر کتاب چھپ کر تیار ہو گئی تھی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’اب مسئلہ یہ تھا کہ بُک سٹال والے اس کتاب کو اپنی دکان میں رکھنے کو تیار نہیں تھے۔ ایسے میں میں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور ایک بزنس پلان بنایا جو بہت کامیاب رہا۔‘

میشا یوسف: نوجوان پاکستانی امریکی جو مغربی معاشرے میں اپنی الگ شناخت پر فخر کرتی ہیں

لینا خان: صدر بائیڈن کی جانب سے امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن کی سربراہ نامزد ہونے والے پاکستانی نژاد خاتون کون ہیں؟

مہر حسین اب نئے لکھاریوں کی مدد کرتی ہیں

مہر حسین بتاتی ہیں کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 2020 کے دوران پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان رہے سہے تعلقات بھی ختم ہو گئے۔ اوپر سے ستم یہ کہ لکھاریوں کو کتاب کی رائیلٹی بھی بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دی جانے لگی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اکثر کو تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ بک سٹال والے کہتے ہیں کہ ہمیں کتاب پر پچاس فیصد منافع چاہیے۔ ‘

’انڈیا میں پاکستان کے بارے میں بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ انڈیا پاکستانی کتابوں کی ایک بڑی مارکیٹ بھی تھی مگر پلوامہ واقعے کے بعد یہ صورتحال بہت بدل گئی ہے۔‘

مہر حسین کہتی ہیں کہ ’اس دوران میرا رابطہ زہرا حمید سے ہوا، ان کے حالات پتا چلے تو میں نے سوچا کہ اپنی کتاب تو چھاپ چکی ہوں اور نتائج بھی اچھے ہیں تو کیوں نہ زہرا حمید کی کتاب بھی چھاپ دوں۔‘

’کتاب کی افتتاحی تقریب گھر میں کی‘

مہر حسین کہتی ہیں کہ اپنی کتاب پر انھیں انڈیا سے زبردست ردعمل ملا تھا۔

’’دی ہندو‘ اخبار کے علاوہ دیگر انڈین میڈیا میں کتاب کے بارے میں چھپا اور میرے انٹرویو بھی چلے تھے۔ میں نے اصل میں اپنی کتاب چھاپنے اور پھر مارکیٹ کرنے میں بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا کی مدد سے سمارٹ مارکیٹنگ کی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کتاب چھاپنے اور پھر مارکیٹ کرنے کے لیے غیر روایتی طریقے اختیار کرتی تھی جس میں آرڈر ملنے کے بعد کتاب کو پوسٹ کے ذریعے سے بھجوایا جاتا تھا۔‘

مگر ’کئی علاقے تو ایسے ہیں کہ جہاں پر ڈاک یا پرائیوٹ کوریئر سروس کے ذریعے سے بھی کتاب نہیں بھجوا سکتے ہیں۔‘

زہرا حمید بتاتی ہیں کہ ’مہر حسین کی بدولت میری کتاب چھپ گئی جس کی افتتاحی تقریب میں نے اپنے گھر میں منعقد کی۔مہر حسین نے اس کی مارکیٹنگ کے لیے بھی مختلف طریقے اختیار کیے، افتتاحی تقریب میں ہی ہم نے کتاب کو بڑی تعداد میں فروخت کیا۔‘

’میری یہ کتاب پوری دنیا میں فروخت ہوئی اور ردعمل مل رہا ہے۔ میں چاہتی تھی کہ لوگ خواتین کے ذہنی صحت سے متعلق مسائل اور اُن کی بپتا کے بارے میں آگاہی حاصل کریں اور ان کے مسائل کو حل کرنے پر غور کریں۔ اس میں اگر زیادہ کامیاب نہیں بھیہوئی تو پھر بھی مجھے امید ہے کہ کامیابی ملی ضرور ہے۔‘

’نقصان میں نہیں جا رہی‘

مہر حسین کہتی ہیں کہ ’ہم اب تک چھ کتابیں چھاپ چکے ہیں۔ تمام کتابیں ایسے موضوعات پر ہیں جن کے بارے میں عام طور پر بات نہیں کی جاتی۔

’میرا ادارہ نقصان میں نہیں جا رہا ہے۔ ہم نہ صرف اچھا کاروبار کر رہے ہیں بلکہ معاشرے پر بہت مثبت اثرات بھی چھوڑ رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مصنفین کو مناسب رائیلٹی دیتے ہیں۔ ’ان کے مسائل حل کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو وہ لکھنا چاہتے ہیں جن مسائل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ جس میں ذوقا کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر آزادی اظہار رائے کا تحفظ کر رہے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More