نوکری چھوڑ کر اپنا کاروبار کرنے پر افسوس: ’میری غلط فہمی تھی کہ میں آزاد ہو جاؤں گی‘

بی بی سی اردو  |  Apr 29, 2023

Getty Images

سیم شریم تقریباً 20 سال سے اپنے باس ہیں۔ انھوں نے اپنی کنسلٹنسی فرم کھولی اور کئی بڑی کمپنیوں کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کام کیا لیکن 54 سالہ شریم کو اگر یہ موقع دوبارہ ملے تو وہ کبھی اپنا کاروبار نہ شروع کرتے۔

بوسٹن سے تعلق رکھنے والے شریم کا کہنا ہے کہ ’اگر مجھ میں پیشگوئی کرنے کی صلاحیت ہوتی تو میں کبھی اپنا کاروبار نہ کرتا۔ مجھے ہر وقت اس پر افسوس ہوتا ہے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں اور اگر میں بڑی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہوتا تو اب تک میں مینجمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر لاکھوں بنا رہا ہوتا۔‘

اپنا باس بننے کے لیے کام چھوڑنا شاذ و نادر ہی زیادہ مقبول رہا ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 2022 میں، نئی امریکی کاروباری ایپلی کیشنز 2004 کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، جس میں پچاس لاکھ سے زیادہ نئی کمپنیاں شروع ہوئیں لیکن جیسا کہ مارچ میں سلیکون ویلی بینک کے خاتمے سے ظاہر ہوتا ہے، جس نے بہت سی چھوٹی کمپنیوں کو ان کے ضروری اکاؤنٹس تک رسائی سے محروم کر دیا تھا۔

کاروبار شروع کرنے کے بڑے خطرات اور ذمہ داریاں ہیں اور کچھ لوگوں کو اپنی نوکری چھوڑنے کا افسوس ہوتا ہے۔

شریم نے 2008 کی کساد بازاری میں اس کا بخوبی تجربہ کیا جب وہ اپنی بچت سے 15 لوگوں کو تنخواہیں دینے پر مجبور تھا۔

شریم نے اپنی رات کی نیندیں خراب کیں اور بھاری مقدار میں قرض لیا۔ انھوں نے جن سٹارٹ اپس کا آغاز کیا وہ آخر کار ناکام ہو گئے۔ انھیں آج بھی بیروت میں ایک بڑی مینجمنٹ کنسلٹنسی فرم میں اپنی نوکری چھوڑنے پر افسوس ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میرے دوست مجھ پر رشک کرتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ میں کن حالات سے گزر رہا ہوں۔ ہر کاروباری شخص ایک خطرہ مول لینے والا ہوتا ہے اور دنیا کو ان کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ایک آسان طرز زندگی نہیں ہے۔‘

برطانیہ میں مقیم کیریئر کوچ عائشہ مرے کا کہنا ہے کہ اپنے کاروبار کو چلانے کی حقیقتوں کا توقعات سے ٹکراؤ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ کاروباری مالکان کی حیثیت سے، ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اکثر شروع سے ہی آمدنی یا کام کی زندگی کی حدود کے بارے میں غیر حقیقی توقعات ہوتی ہیں۔ ’اگر آپ نے اپنے طور پر شروع کرنے سے پہلے ایک کامیاب کیریئر بنا لیا تھا تو آپ فرض کر لیتے ہیں کہ آپ جو بھی کام کریں گے آپ کامیاب ہو جائیں گے۔‘

اس کے علاوہ اگر آپ کاروبار میں تلخ تجربات کی حقیقتوں کا موازنہ دوسروں کے آن لائن شیئر کرنے والے بظاہر خواشگوار تجربوں سے ہوتا ہے تو پھر تکلیف بڑھ جاتی ہے۔

کیتھرین واریلو کا بھی یہی حال تھا، جنھوں نے پہلی بار 2006 میں اپنی پی آر ایجنسی قائم کی تھی۔ بظاہر یہ ایک مثبت قدم تھا۔ ان کی پی آر ایجنسی کے پاس اچھے کلائنٹ تھے اور وہ ایک کامیاب کاروبار میں بدل گئی جہاں سات لوگ کام کرتے تھے۔

واریلو کا کہنا ہے کہ لیکن میں کبھی بھی اپنا دھیان کاروبار سے ہٹا نہیں سکتی تھی۔ ’میں ہر وقت دباؤ میں رہتی تھی۔ کچھ بھی اچھا محسوس نہیں ہوا۔‘

اس تناؤ نے انھیں ایک ایسی شخصیت میں بدل دیا کہ جو ہر کام کو خود کنٹرول کرتی تھی اور اپنی ٹیم کو مائیکرو مینیج کرتی تھیں۔ برطانیہ کے شہر آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے 43 سالہ کیتھرین واریلو نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری سب سے بڑی غلط فہمی یہ تھی کہاگر آپ کا اپنا کاروبار ہے تو آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے آ سکتے ہیں، جا سکتے ہیں اور اپنے اوقات مقرر کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ زندگی کو کام کے گرد فٹ ہونا تھا، گاہک توقع کرتے تھے کہ میں مسلسل دستیاب رہوں گی۔‘

یہی وجہ ہے کہ، 2015 میں، ان کے ممکنہ کلائنٹ میں سے ایک کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کے بعد، دو بچوں کی ماں نے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جس دن میں نے اپنا کام چھوڑنے کا فیصلہ کیا وہ شاید میری پیشہ ورانہ زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک بہت بھاری وزن میرے کندھے سے اتر گیا ہے۔‘

اب وہ ایک ٹریول کمپنی کی مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں بہت سی ایسی آزادیاں حاصل ہیں جن کے بارے وہ سوچتی تھیں کہ جب وہ اپنا کام کریں گی تو ہی حاصل ہوں گی۔

اب وہ اپنی اپائنٹمنٹ کے لیے باہر نکلنے کے قابل ہیں اور کبھی کبھار دوست سے ملنے کے لیے کام سے جلدی بھی چھوڑ سکتی ہیں۔

جہاں تک شریم کا تعلق ہے، وہ اب بھت اپنے باس ہی رہیں گے۔ اگرچہ انھوں نے 2017 میں ایک بڑی فرم کے لیے کل وقتی کام کرنے کی کوشش کی لیکن کسی اور کے لیے کام کرنے میں جس تبدیلی کی ضرورت تھی، وہ اپنے آپ میں پیدا نہ کر سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’باس سے ایک ماتحت میں تبدیل ہونے میں، مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر انھوں نے پہلے اپنا کام نہ کیا ہوتا تو شاید انھیں یہ مسئلہ درپیش نہ آتا۔

یقیناً کامیابی کی بہت ساری کہانیاں ہیں اور بہت سے لوگ اپنے کاروبار شروع کرتے ہیں۔ وہ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے۔

لیکن شریم کسی اور کو اپنے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دینے کے بارے میں محتاط ہیں: ’جو کوئی بھی کاروبار کی دنیا میں چھلانگ لگانا چاہتا ہے، اسے نشیب و فراز سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More