’میں بارود کے ذریعے اپنی کہانی بتاتا ہوں‘ پارہ چنار کے مصور کے غیر روایتی فن پارے

بی بی سی اردو  |  Apr 29, 2023

BBC

میثم کی عمر اس وقت بہ مشکل دس سال ہو گی جب ان کے گاؤں میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ لیکن انھیں آج بھی یہ بات اچھی طرح یاد ہے۔ انھیں وہ خوف اور وحشت زدہ ماحول آج تک نہیں بھولتا جب اس دن یہ کہانی پارہ چنار کے ہر گاؤں والے کی زبان پر تھی۔

’میرے کزن حکمت نے اپنی بیوی کو مرنے سے پہلے فون کیا تھا کہ میں ابھی تک زندہ ہوں اور مجھے گولی لگی ہے۔ میں نہر کے اِس پار زخمی پڑا ہوں۔ میں زندہ ہوں اور میں مر نہیں سکتا۔‘

’بس کسی کو اس طرف بھیج دیں تا کہ مجھے لے آئے۔ لوگوں نے بہت کوشش کی کہ نہر پار کر کے انھیں لے آئے لیکن بہت زیادہ شیلنگ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی نہ پہنچ سکا۔ اس طرح زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔‘

’حکمت کے دو بچے بھی ہیں جو اب بڑے ہو چکے ہیں۔‘ میثم نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔

'زندگی میں بہت کم ایسے واقعات ہوتے ہیں جو انسان کبھی نہیں بھول سکتا اور وہ ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور بندہ سوچتا ہے کہ کاش۔۔۔ کاش کہ اس دن لوگ پہنچ جاتے تو حکمت اس وقت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوتا۔‘

لیکن صرف یہی نہیں اس کے کچھ عرصے بعد حکمت کے ایک اور بھائی حامد جو کہ ایک سکول میں چوکیدار تھے دہشت گردوں کی فائرنگ اور دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھے۔ اس علاقے میں اب 'شہید حامد' کے نام سے ایک چوک بھی ہیں۔

اس طرح کے کئی اور درد ناک واقعات میثم حسین نے مجھے لاہور میں اپنے سٹوڈیو میں سنائے۔

ان کا تعلق پارہ چنار کے ایک خوبصورت گاؤں سے ہے اور وہ وہیں پلے بڑھے ہیں۔ لیکن تعلیم اور اپنے شوق کی خاطر وہ لاہور آ گئے جہاں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) میں داخلہ لیا اور چار سال کی تعلیم کے بعد اب آہستہ آہستہ اپنا نام بنانے میں کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس کالج میں مجسمہ سازی کی کلاس پڑھاتے ہیں۔

یہ کہانی دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں ہے نہ ہی اس بارے میں کہ کس نے کس کو مارا۔ بلکہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران ہونے والے واقعات کے نتیجے میں ایک ایسے آرٹسٹ کی کہانی ہے جس نے حالات اور واقعات کو ایک ایسے تخلیقی انداز میں محفوظ کرنا شروع کیا جو واقعی تحسین کے لائق ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=cNTSIdkP_cc

میثم نے مجھے آر پی جی (راکٹ لانچر) کا ایک ناکارہ گولہ ہنستے ہوئے دکھایا اور کہا کہ ’میرے چاچوں نے جب پہلی دفعہ میرے ہاتھ میں یہ گولہ دیکھا تھا تو مجھے ڈانٹ کر کہا تھا کہ لگتا نہیں کہ تم ایک تعلیم یافتہ شخص ہو۔‘

میثم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’پھر میں نے انھیں سمجھایا کہ میرا کام ہی انھی چیزوں سے بنتا ہے۔ اور یہ ایک راکٹ لانچر کا ناکارہ گولہ ہے کیونکہ اس کا بارود پھٹ چکا ہے۔‘ میثم کو وہ گولہ ایک پانی کی ٹینکی کے پاس ملا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

عائشہ کمال کا ایک پینٹنگ کے عوض پانچ ہزار سے 50 لاکھ روپے تک کمانے کا سفر

’میں ایک سن لائٹ آرٹسٹ ہوں‘: سورج کی روشنی سے فن پارے بنانے کی غیر معمولی تکنیک

دراصل میثم کا کام ہی ان چیزوں کو محفوظ کرنا ہے لیکن وہ بھی اس انداز میں کہ لوگ جب ان کے کام کو پہلی دفعہ دیکھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کا کام کوئی پینٹنگ نہیں بلکہ وہ اصل دیوار، یا کنکریٹ جہاں دھماکہ یا فائرنگ ہوئی تھی، اسے اس جگہ سے بڑی صفائی سے کاٹ کر نمائش کے لیے لا کر رکھا گیا ہو۔

لیکن اصل میں میثم انھی دیواروں کو، جہاں پر کوئی دھماکہ ہوا ہو، یا پھر کسی آپریشن کے نتیجے میں بوسیدہ حال کوئی دیوار جو گرنے کے قریب ہو، ان کا مولڈ کاسٹ بنا کر اسے اپنے تخلیقی انداز میں دوبارہ سے اپنے مخصوص بنائے گئے صفحوں پر پینٹ کرتے ہیں۔

لیکن اس کے بعد جو وہ کام کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کا نام بن رہا ہے اور وہ ایک منفرد طریقہ بھی ہے۔

وہ اپنے بنائے ہوئے موٹی تہہ والی صفحوں پر بارود جلاتے ہیں، جس طرح کسی بھی سطح پر فائرنگ یا دھماکے کے بعد جلنے کے نشانات ہوتے ہیں۔ بارود کے جلانے سے ان کو بالکل اسی طرح کا ٹیکسچر ملتا ہے جو ایک دھماکے یا فائرنگ کے بعد بنتا ہے۔

BBC

میثم کہتے ہیں کہ بارود کے جلانے سے ایک تو ان پینٹگز پر اصل میں اسی طرح کے نشانات اور سوراخ بن جاتے ہیں جس طرح اصل میں کسی دیوار میں بنتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اسی طرح کا ٹیکسچر یا اس کی ساخت بناتے ہیں۔

’خواہ وہ گولی کا نشان ہو، یا راکٹ لانچر یا میزائل ہو، یا کوئی دھماکہ ہو، میرا کام ان کے نتیجے بننے والے ٹیکسچر کے بارے میں ہیں۔ وہ کسی بھی دیوار، دکان کے شٹر یا زمین کا ٹیکسچر ہو سکتا ہے۔‘

میثم نے اپنے کام کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں جس طرح کا کام کرتا ہوں وہ میں نے باقی آرٹسٹ کے کام میں اب تک نہیں دیکھا یا اگر کوئی کر بھی رہا ہے تو میرا کام اس لیے مختلف ہے یا کہہ لیں کہ اس میں زیادہ گہرائی ہے کیونکہ میں ان چیزوں پر کام کرتا ہوں جو بچپن میں میری نظروں کے سامنے ہوئے ہیں۔ اور میں ان سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوا ہوں۔‘

انھوں نے مزید اپنے کام کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح ایک شاعر دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے اور الفاظ کے چناؤ سے ایک بہترین شاعری کرتا ہے، میں بارود کے ذریعے اپنی کہانی بتاتا ہوں لیکن ایک پُرامن طریقے سے۔ مگر میں پھر بھی اس جلنے کے عمل کو ایک طرح سے جشن کے طور پر مناتا ہوں۔‘

BBC

میثم کہتے ہیں کہ ’ایک آرٹسٹ ہونے کی حیثیت سے میں اس طرح کام کرتا ہوں کہ میری بات بھی دنیا تک پہنچ جائے اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔‘

انھوں نے اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں گاؤں میں تھا تو مجھے یاد ہے جب دو گروہوں کے بیچ میں لڑائی ہوتی تھی، یا پھر طالبان کے ساتھ اگر جھڑپیں ہوتی تھی۔ جب ایک دوسرے کو مارا جاتا تھا تو جس کا کم نقصان ہوتا تھا تو وہ خوشیاں مناتے تھے کہ فلاں گروہ کا ہم نے اتنا نقصان کیا یا ہم نے فلاں کے اتنے گھر جلا دیے۔‘

’لوگوں کے نقصان اور اپنے تشدد کا ایک جشن منایا جاتا تھا۔ میں بھی اب اپنے کام کے دوران بارود جلانے کے عمل کا جشن مناتا ہوں لیکن وہاں پر بارود کا اور نتیجہ نکلتا تھا اور یہاں ایک ایسا آرٹ پیس بنتا ہے جسے دنیا کے سامنے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔‘

میثم نہ صرف پینٹنگز کے مختلف میڈیمز میں کام کرتے ہیں بلکہ وہ ایک اچھے مجسمہ ساز بھی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بانسری بھی بجاتے ہیں۔ اور اس سب کا سہرا وہ اپنے والد کے سر باندھتے ہیں۔

BBC

’بچپن میں، میں اپنے والد کی ویلڈنگ کی دکان میں جا کر کام کیا کرتا تھا، اور ایک مجسمہ ساز کے لیے کسی بھی مجسمے کا سانچہ بنانا سب سے مشکل ترین کام ہے۔ لیکن میرے والد نے ایک ایسے انداز میں میری تربیت کی تھی کہ میں سیکھ گیا تھا کہ کس طرح ایک اچھے طریقے سے مختلف چیزوں کو کس طرح جوڑا جاتا ہے اور اس کا ڈھانچہ بنایا جاتا ہے۔‘

اس لیے وہ اپنے مجسمہ سازی کے عمل میں اپنے والد کو اپنے بہترین استاد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میثم جب پہلی دفعہ کالج سے چھٹیوں کے لیے اپنے گاؤں گئے تھے تو انھوں نے اپنے والد کا ایک مجسمہ بنا کر گھر میں سب کو حیران کر دیا تھا۔

میثم نے کہا کہ وہ شکر ادا کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہیں جہاں اس طرح کے کام کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، ان کے گھر والوں نے ان کی بھر پور مدد کی۔ یہاں تک کہ انھوں نے بانسری بجانے کی شروعات بھی والد کے ساتھ کی تھی۔

میثم پارہ چنار اور ان جیسے علاقوں کے نوجوانوں کے لیے، جہاں پر تشدد واقعات نے کئی دہائیوں تک راج کیا ہے، ایک ایسی مثال ہیں جن سے کافی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ تاریخ کے ایک منفی پہلوں کو لے کر ان کو ایک مثبت طریقے سے اس طرح تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر رہے ہیں کہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہو۔

انھوں نے اپنی گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بارود سے پہلے میرا تعلق اسحلے کے ساتھ تھا۔ اور میرے بچپن کا کھلونا بندوق تھا۔ مجھے بچپن میں بندوق کھول کر بند کرنا، اور اسلحے کے معمولی مسائل کو دور کرنا سکھایا گیا تھا۔ کیونکہ اس زمانے کے حساب سے وہ چیزیں لازمی تھی۔ وہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ تھا۔‘

’لیکن ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی لڑائی میں نقصان دونوں طرف ہوتا ہے، عورتیں بیوہ ہوتی ہیں، دونوں طرف لوگ مرتے ہیں، دونوں طرف بچے یتیم ہوتے ہیں، اور نقصان تو سب کا ہوا ہے، اور بہت زیاد ہوا ہے۔ اور یہ باتیں کسی کے ذہن سے کبھی نہیں نکل سکتی، خواہ کسی بھی گروہ کا ہو۔‘

میثم کے سٹوڈیو میں ہر طرف مختلف اقسام کے فن پارے موجود ہوتے ہیں جس میں مختلف قسم کے مجسمے، راکٹ لانچر کے نتیجے میں تباہ ہونے والی دیواروں کے نمونے سے لے کر ان کے والد کا مجسمہ بھی شامل ہیں۔

ایک طرح سے انھوں نے اپنے سٹوڈیو میں تاریخ کو قید کر رکھا ہے جسے وہ اپنے انداز میں سیلیبریٹ کرتے ہیں، کہ کسی کا نقصان بھی نہ ہو اور اپنی بات بھی لوگوں تک پہنچ سکیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More