قطر کے صحرا میں کیوبا کا منفرد ہسپتال جہاں تمام ڈاکٹر بھی کیوبن ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 28, 2023

قطر میں اگر آپ دارالحکومت دوحہ سے 80 کلومیٹر مغرب میں واقع شہر دوخان کے بارے میں پوچھیں تو مقامی لوگ آپ کو بتاتے ہیں کہ ان کے تیل کے پہلے ذخائر اسی مقام پر دریافت ہوئے تھے اور یہاں کا ساحل نہایت شاندار ہے۔

لیکن اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ اس عرب ملک کی دولت کی تاریخ سے زیادہ کیوبا کا ذکر بھی کرتے ہیں اور یہ وہی مقام ہے جہاں دسمبر 2022 میں ارجنٹائن کو ورلڈ کپ کا چیمپیئن قرار دیا گیا تھا۔

اس قطری شہر کے قریب ہی ایک کیوبا کا ہسپتال ہے، جس کا نظم ونسق تو قطر کے پاس ہے لیکن اس ہسپتال کا تقریباً تمام عملہ کیوبا سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ مقام دوحہ سے بس کے ذریعے دو گھنٹے کے فاصلے پر صحرا کے وسط میں واقع ہے اور ہسپتال کے باہر دونوں ممالک کے پرچم لہرا رہے ہیں۔

اس ہسپتالکو مریضوں کی بہترین دیکھ بھال اورعملے کی پیشہ ورانہ مہارت کی بدولت کئی تعریفی اسناد مل چکی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اسے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہاں ملازمین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔

بی بی سی منڈو سروس نے ہسپتال کی طبی خدمات اور اس پر اٹھنے والے سوالات، دونوں کے بارے میں مزید جاننا چاہا لیکن کیوبا کی حکومت، قطر کی وزارت صحت اور قطر میں کیوبا کے سفارت خانے نے ہماری متعدد درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ قطری حکومت نے صورتحال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے لیے اس ہسپتالکا دورہ کرنے کی اجازت حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ہوا۔

Getty Imagesقطرکے امیر حماد بن خلیفہ الثانی جب سنہ 2008 میں کیوبا گئے تو ان کے میزبان راؤل کاسترو سے تھے

قطر اور کیوبا کے تعلقات

قطر اور کیوبا کے درمیان تعلقات کا آغاز سنہ 1989 میں ہوا تھا اور سنہ 1998 میں دوحہ میں کیوبا کے سفارت خانے کے افتتاح کے ساتھ یہ تعلقات مزید مضبوط ہوگئے۔ دوسری جانب کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں قطری سفارتخانے نے اپنے دروازے سنہ 2001 میں کھولے۔

بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر اور قطر اور لاطینی امریکہ کے درمیان تعلقات کے ماہر،ایرک ویرامونٹس کہتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات تاریخ کے ایک اہم موڑ پر قائم ہوئے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب ایک طرف کیوبا سوویت یونین کے خاتمے اور امریکی پابندیوں کے بعد نئے اتحاد بنانے کی تلاش میں تھا اور دوسری طرف قطر بھی زیادہ سے زیادہ بین بین الاقوامی موجودگی کا خواہاں تھا۔

قطر ایک امیر لیکن چھوٹی سی ریاست ہے جس کی آبادی 30 لاکھ سے بھی کم ہے اور یہ خلیج فارس میں واقع ہے، جو دنیا میں تیل کی سب سے بڑی نقل و حمل کا علاقہ ہے۔ عراق، سعودی عرب اور ایران سمیت اپنے ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اسے انتہائی غیر مستحکم خطہ سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 1995 سے 2013 کے درمیان حکومت کرنے والے امیر حماد بن خلیفہ الثانی کی جدید سوچ اور خطے کے حالات نے قطر کو اپنی سلامتی کو مضبوط بنانے، غیر ملکی ٹیلنٹ درآمد کرنے اور کئی نئے ممالک کے ساتھ تعاون قائم کرنے کی ترغیب دی۔

یہ وہ حالات تھے جن میں ’کیوبا ہسپتال‘ جیسے اداروں کو یہاں پھلنے پھولنے کے لیے موزوں فضا دستیاب ہوئی۔

Getty Imagesترکی میں زلزلے کے متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنے میں ہینری ریڈ برگیڈ کی ٹیم پیش پیش تھی

پروفیسر ایرک ویرامونٹس کے مطابق ان دنوں قطر کو اپنے صحت کے شعبے کو وسعت دینے کی ضرورت تھی اور قطر کی یہ مانگ کیوبا کے ماہرین صحت پورا کر سکتے تھے اور یوں کیوبا کے ڈاکٹر اپنے ملک زیادہ سے زیادہ پیسے بھیج سکتے تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے کیوبا کے لیے قطر سے آنے والی رقوم ایک اچھا ذریعہ آمدن تھا۔

کینیڈا کی ڈلہوزی یونیورسٹی کے محقق، جان کرک کہتے ہیں کہ 'قطر کیوبا کے بین الاقوامی تعلقات میں ایک استثنیٰ ہے،اور یہکیوبا کی اس بات کی ایک مثال ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹروں کی مہارت کی بنیاد پر دوسرے ممالک سے پیسہ کمانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کو سستا علاجفراہم کر سکے۔

یہ بھی ’ایک انوکھی صورتحال‘ ہے کہ کیوبا سے باہر ’ہاسپٹل کیوبانو` کے نام سے ایک مرکز موجود ہے جس میں اُس جزیرے سے آنے والے تقریبا تمام پیشہ ور افراد موجود ہیں۔

جان کرک کہتے ہیں کہ 1960 کی دہائی میں کیوبا کے انقلاب کے آغاز سے لے کر 1990 کی دہائی تک، کیوبا کے طبی مشن اکثر کم وسائل والے ممالک میں بھجوائے جاتے تھے،لیکن حالیہ عشروں سے کیوبا امیر ممالک کو بھی اپنی یہ مہارت فراہم کر رہا ہے۔.

کرک کہتے ہیں کہاس کی حالیہ مثال اٹلی، قطر اور سعودی عرب میں کیوبا کے سفارتخانوں کا کھلنا ہے۔

Getty Imagesحالیہ عشروں سے کیوبا امیر ممالک کو بھی اپنی مہارت فراہم کر رہا ہے

کیوبا کے طبی مشن کے 60 سال

ایک مرتبہ کیوبا کی وزارت خارجہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ بین الاقوامیت ایک ایسا اصول ہے جسے سنہ 1963 میں الجزائر میں کیوبا کے پہلے طبی مشن کے آغاز سے ہی ملک کے صحت عامہ کے شعبے میں ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔

عالمی سطح پر صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے کیوبا کو 60 برس ہو گئے ہیں اور اس دوران کیوبا 150 سے ممالک میں دو ارب سے زیادہ مریضوں کا علاج کر چکا ہے۔کیوبا کی وزارت خارجہ کے مطابق، سنہ 2023 کے آغاز میں، کیوبا کے تقریباً 24 ہزار طبی ماہرین اور عملے کے دیگر افراد 56 ممالک میں خدمات فراہم کرتے ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق کیوبا میں ہر ایک ہزار افراد ءکے لیے آٹھ ڈاکٹر دستیاب ہیں اور یہ ریکارڈ نہ صرف لاطینی امریکہ بلکہ دنیا کے بہترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کیوبا کو دیگر مالک کو ڈاکٹر اور طبی سہولیات فراہم کرنے کا بہتر موقع فراہم کرتی ہے۔

لیکن دیگر آوازیں، جن میں سے کچھ اس رپورٹ میں شامل ہیں، کا خیال ہے کہ یہ عمل بیرون ملک ایک اچھا امیج پیش کرنے اور امریکی پابندیوں اور پیداواری خامیوں سے متاثر ہونے والی معیشت کو کم کرنے کے لئے ایک سفارتی وسیلہ اور آمدنی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

لیکن ہر کوئی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کیوبا اسے دنیا میں اچھی سفارتکاری کے لیےاستعمال کر رہا ہے اور اس نے اسے امریکی پابندیوں اور اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے متاثر ہونے والی ملکی معیشت کا مستقل ذریعہ بنا لیا ہے۔

قطر کا اچھی شہرت والا ہسپتال

کیوبا کا ہسپتال تیل کی قومی کمپنی ’قطر پیٹرولیم‘کے ہیڈ کوارٹر کے قریب ہےواقع ہے۔

قطر میں کیوبن مشن کے سربراہ ڈاکٹر ارنیسٹو لوپیز کروز نے 2019 میں کیوبا کی وزارت صحت کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے اس ہسپتال کو شروع شروع میں ریاست کے شمال مغرب میں گیس پیدا کرنے والے علاقے میں ایک چھوٹا سا طبی مرکز سمجھا جاتا تھا۔

لیکن آج یہاں زیر علاج مریضوں میں سے ’ 60 فیصد سے زیادہ ایسے ہیں جن کا تعلقق دارالحکومت دوحہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک میں موجود سفارتی عملے کےافراد ہمارے ہپستال میں آتے ہیں۔

اگرچہ قطر اور کیوبا کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون اس صدی کے آغاز سے ہو گیا تھا، تاہم ہپستال کی موجودہ عمارت کا افتتاح 2012 میں کیا گیا تھا، جب امیر حماد بن خلیفہ الثانی اور اس وقت کے کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قطر میں کام کرنے والے کولبیا کے ایک تارک وطن کاکہنا تھا کہ اس ہسپتال میں ان کی ’بہت اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے اورکیوبا کے ڈاکٹر ان کے ساتھ گرم جوشی سے پیش آتے ہیں اور وہ بہترین ہیں۔‘

اسی طرح وینزویلاسے تعلق رکھنے والے کے ایک جوڑے کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں کیوبا کے ڈاکٹروں نے بہت اعلیٰ کام کیا تھا۔

ناقدین کیا کہتے ہیں؟

تاہم، قطر میں خدمات فراہم کرنےوالے تما تارکین وطن مطمئن نہیں ہیں۔ مثلاًقطر میں چار سال گزارنے والے ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ قطری حکام نے ’ شروع سے آخر تک ہمارے حقوق کی خلاف ورزی کی۔‘

’جب آپ یہاں آتے ہیں، تو وہ آپ کا پاسپورٹ لے لیتے ہیں اور جب تک آپ چلے نہیں جاتے، وہ آپ کو پاسپورٹ واپس نہیں دیتے۔ آپ یہاں ایسے رہتے ہیں جیسے آپ وظیفہ پر (بورڈنگ اسکول)میں رہتے ہیں۔یہاں نہ صرف آپ کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے بلکہ قطر میں دوسرے ڈاکٹروں کی کمائی کے مقابلے میں آپ کی تنخواہ مضحکہ خیز ہے۔‘

مذکورہ ڈاکٹر کا بیان ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں، اقوام متحدہ کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خدشات اور کیوبا میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی اسپین کی ایک غیر سرکاری تنظیم پریزنرز ڈیفینڈرز کی جانب سے جمع کیے گئے دیگر بیانات سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔

پریزنرز ڈیفینڈرزنامی تنظیم کے قطر کے صدر جیویئر لارونڈو کا کہنا ہے کہ قطر میں کام کرنے والے تارکین وطن پر ’مسلسل نظر رکھی جاتی ہے، انھیں اپنی مخصوص رہائش گاہوں میں کرفیو کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ باہر رات نہیں گزار سکتے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی مطلق العنان دنیا میں رہ رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں عرب دنیا کو جاننا چاہتا تھا، لیکن یہاں رہنا واقعی قربانی دینے کے متردافتھا۔ اور واپسی پر کیوبا کے حکام بھی اسی جانچ پڑتال میں لگے رہتے کہ میں نے پیسہ کہاں سے کمایا ہے۔‘

سنہ 2019 میں اقوام متحدہ کے نمائندوں نے کیوبا کی حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں دیگر ممالک میں کیوبا کی طبی ٹیموں میں کام کرنے والے افراد نے اسی قسم کے الزامات کا اظہار کیا تھا۔

اس خط کے مطابق کیوبا کی حکومت اپنے بیرونِ ملک کام کرنے والے پیشہ ور افراد کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔

یہ کچھ ایسے مسائل ہیں جنہیں بی بی سی منڈو نے کیوبا کے حکام سے مختلف مواقع پر بار بار درخواستوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی، لیکن ہمیں حکام کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More