انڈین سرکاری ملازم کی اہلیہ 30 برس قبل قتل ہونے والے شوہر کے مجرم کی رہائی پر پریشان

بی بی سی اردو  |  Apr 28, 2023

تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن امہ کرشنا کو آج بھی اپنے شوہر کے قتل سے چند گھنٹوں قبل ان سے ہونے والی بات چیت اچھی طرح یاد ہے۔

یہ پانچ دسمبر 1994 کی ایک صبح تھی جب یہ جوڑا علی الصبح ہی بیدار ہو گیا تھا کیونکہ شمالی انڈین ریاست بہار کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر اور امہ کرشنا کے شوہر جی کرشنا کو حاجی پور کے علاقے میں ایک اہم میٹنگ کے لیے صبح پانچ بجے سفر کرنا تھا۔

حاجی پور ان کے گھر سے 131 کلومیٹر دور تھا۔

امہ کرشنا نے مجھے بتایا کہ ’وہ ایک سرد ترین صبح تھی اور وہ باہر باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے، میں نے ان سے اندر آنے کا کہنا کیونکہ مجھے فکر تھی کہ کہیں انھیں ٹھنڈ نہ لگ جائے۔‘

’لیکن انھوں نے مجھے کہا پریشان مت ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہاں بہت سے غریب افراد ہیں جن کے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں۔ میں نے سویٹر پہن رکھا ہے، میں نے گرم کپڑے پہن رکھے ہیں مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘

اس کے چند گھنٹوں بعد امہ کرشنا ہسپتال میں موجود تھیں اور اپنے شوہر کی خود آلود لاش کو دیکھ رہی تھیں۔

انھوں نے جذبات سے لرزتی آواز میں کہا کہ ’ان کے جسم اور چہرے پر بہت سے زخم تھے۔‘

کرشنا جنھیں صحافی اور سابق ساتھی ’ایک ایماندار اور اصولوں پسند افسر‘ اور ’ایک اچھے منتظم‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں، میٹنگ سے واپس آ رہے تھے جب خطرناک گینگسٹر سے سیاستدان بننے والے چھوٹا شکلا کی ایک روز قبل ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم نے ان کی گاڑی کو روکا تھا۔

اس مشتعل ہجوم نے جس میں شکلا کے ہزاروں حمایتی شامل تھے ان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا، انھیں گاڑی سے نکالا اور زدوکوب کرنا شروع کر دیا تھا۔

پٹنا سے تعلق رکھنے والے ایک سنیئر صحافی امرناتھ تیواری کا کہنا ہے کہ ’کرشنا نے، جو اس وقت گوپال گنج کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے مشتعل ہجوم کو بارہا یہ بتانے کی کوشش کی کہ ساتھ والے ضلع میں ہونے والے شکلا کے قتل سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔‘

’لیکن مشتعل ہجوم نے ان پر تشدد کیا اور ایک شخص نے ان کے سر پر گولی ماری تھی۔ بعد ازاں پولیس کو ان کی خون میں لت پت لاش وہیں ملی تھی۔‘

اس قتل نے ان کی اہلیہ امہ کرشنا کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ جرم کی سنگینی اور ان کے شوہر کے ساتھ ہونے والی بربریت نے بھی پورے ملک میں جھنجوڑ کر رکھ دیا اور اس بارے میں قومی اخباروں میں شہ سرخیاں بنیں۔

Getty Imagesآنند موہن سنگھ کو جی کرشنا کے قتل میں ہجوم کو اکسانے کے الزام میں سزا دی گئی تھی

تین دہائیوں قبل سرکاری ملازم کو قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے آنند موہن سنگھ کے رواں ہفتے جیل سے چھوٹ جانے کے بعد یہ بھیانک جرم ایک بار دوبارہ خبروں میں آ گیا ہے۔

آنند موہن سنگھ پر، جو اس وقت بہار کی ریاستی اسمبلی کے رکن تھے، ہجوم کو اشتعال دلانے اور کرشنا کو گولی مارنے کے لیے اکسانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

سنہ 2007 میں ایک مقامی عدالت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی تھی۔ ایک سال بعد، پٹنا ہائی کورٹ نے اسے عمر قید کی سزا میں تبدیل کر دیا تھا اور اس سزا کو سپریم کورٹ نے سنہ 2012 میں برقرار رکھا تھا۔

حالیہ رہائی سے قبل آنند موہن سنگھ کو رہا نہیں کیا جا سکا کیونکہ بہار جیل کے قواعد کے مطابق ’کسی بھی سرکاری اہلکار کو ڈیوٹی کے دوران ہلاک کرنے والے شخص‘ کو قبل از وقت رہائی کا حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن رواں ماہ کے اوائل میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں ریاستی حکومت نے جیل مینوئل سے اس شق کو ہٹا دیا اور سنگھ سمیت 27 قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔

اس فیصلے پر اپوزیشن کے چند سیاست دانوں، کارکنوں اور شہریوں کی طرف سے تنقید کی گئی ہے، بہت سے لوگوں نے سنگھ کی رہائی کا موازنہ گزشتہ اگست میں گجرات حکومت کے اس فیصلے سے کیا جس میں ایک مسلم خاتون کا گینگ ریپ کرنے والے اور سنہ 2002 کے بدترین مذہبی فسادات کے دوران ان کے خاندان کا قتل کرنے والے مجرموں کو رہا کر دیا گیا تھا۔

گجرات کے حکام نے بتایا تھا کہ ریاستی حکومت کے ایک پینل نے ان کی رہائی کی منظوری دی تھی کیونکہ ان افراد نے 14 سال سے زیادہ جیل میں گزارے تھے۔

سرکاری ملازمین کی ایسوسی ایشن نے بہار سرکار سے کہا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

ایسوسی ایشن نے ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس طرح کی کمزوری دکھانے سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، سرکاری ملازمین کے حوصلے پست ہوتے ہیں، امن عامہ کو نقصان پہنچتا ہے اور انصاف کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔‘

لیکن بہار کی حکومت اور آنند موہن سنگھ نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر قانونی نہیں ہے۔ بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادیو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’اس نے اپنی سزا پوری کر لی ہے اور اسے قانونی طور پر رہا کیا جا رہا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آنند موہن سنگھ اعلیٰ ذات کی راجپوت برادری میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں جو ریاست کی آبادی کا چار فیصد ہے۔ اور مسٹر کمار اور مسٹر یادو کی قیادت میں ریاست کا حکمران اتحاد اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں ان کی حمایت چاہتا ہے۔‘

لیکن سیاسی رسہ کشی سے دور، کرشنا خاندان نے اس فیصلے کو مایوس کن پایا ہے کیونکہ اس سے ان کے پرانے زخم دوبارہ تازہ ہو گئے ہیں۔

امہ کرشنا نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے جو ایک غریب دلت (سابقہ اچھوت) خاندان سے تھے، سنہ 1981 میں جنوبی شہر حیدرآباد کے کالج میں ملی تھیں۔ ان کے قتل کے وقت وہ دو بیٹیوں کی پرورش کر رہے تھے جن کی عمریں ساڑھے چار اور پانچ سال تھیں۔

ان کی موت کے ایک دن بعد وہ اپنے بچوں کے ساتھ حیدرآباد واپس چلی گئی جہاں انھوں نے خاندان کی کفالت کے لیے بطور کالج ٹیچر کے ملازمت اختیار کی۔

انھیں آنند موہن سنگھ کی سزا سے کچھ راحت ملی تھی لیکن اسے ایک بار پھر جیل سے رہائی پاتا دیکھ انھیں دلی صدمہ پہنچا ہے اور وہ افسردہ ہیں۔

انھوں نے کہا ’میرے شوہر ایک سرکاری افسر تھے۔ انھیں ڈیوٹی کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ان کے قاتل کو کیسے رہا کر سکتے ہیں؟ حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘

’یہ معاشرے میں غلط پیغام دے گا اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ وہ اب سوچیں گے کہ اگر انھوں نے کوئی سفاکانہ قتل کر بھی دیا تو وہ آزاد ہو جائیں گے۔‘

مسز کرشنا نے وزیر اعظم اور صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور ان کی شوہر کے قاتل کو دوبارہ جیل بھیجا جائے۔

جمعرات کی صبح، سنگھ کی جیل سے رہائی کے چند گھنٹے بعد امہ کرشنا کی بیٹی پدما نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ان کا خاندان ’صدمے‘ میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس فیصلے پر نظرت ثانی کریں۔ ان کی حکومت نے ایک غلط مثال قائم کی ہے۔ یہ نہ صرف ایک خاندان کے ساتھ بلکہ پوری قوم کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل کریں گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More