Getty Images
کراچی میں خود کو ’سید‘ کہنے پر ایک احمدی وکیل کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ پولیس نے مذکورہ وکیل کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
کراچی سٹی کورٹ میں جمعرات کی صبح وکلا نے احتجاج کیا اور سٹی کورٹ تھانے کا گھیراؤ کر لیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ احمدی وکیل کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا جائے۔
پولیس کے مطابق صورتحال کشیدہ ہو جانے کے بعد پولیس نے وکیل کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
ایس ایس پی وسطی عارف عزیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ وکیل کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا ہے اور انھیں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ محمد اظہر کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جمعرات کو وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی کی عدالت میں ایک کیس کے سلسلے میں پیش ہوئے جہاں دوسرے فریق کی جانب سے ایک وکیل نے اپنا وکالت نامہ داحل کرایا جس میں اس نے اپنے نام کے ساتھ ’سید‘ لکھا تھا جبکہ یہ وکیل احمدی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں بھی اسی وکیل کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر اپنے نام کے ساتھ ’سید‘ لکھنے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔
اس معاملے میں محمد احمد نامی مدعی کا مؤقف تھا کہ جوڈیشل مجٹسریٹ ایسٹ کی عدالت میں توہین مذہب یعنی تعزیرات پاکستان کی شق 298 بی کے مقدمے میں نامزد چھ ملزمان کو پیش کیا گیا تو ان کی جانب سے جو وکیل پیش ہوئے وہ بھی احمدی تھے۔
مدعی کا دعویٰ تھا کہ جب انھوں نے یہ درخواست وصول کی اور دیکھا کہ کاغذ پر جو بریف تھا اس پر ’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے لیکن آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی کے تحت احمدی شعائر اسلام کا استعمال نہیں کر سکتے۔
Getty Imagesمدعی کا دعویٰ ہے کہ احمدی وکیل نے شعائر اسلامکو استعمال کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے
اس سے قبل اسی مدعی کی جانب سے جمشید کوارٹرز میں احمدی کمیونٹی کے خلاف بھی مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔
26 ستمبر کو دائر کیے گئے اس مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ علاقے میں احمدی برادری نے اپنا ایک غیر قانونی مرکز بنا رکھا ہے جہاں خلاف قانون مینار بنائے گئے ہیں جو کہ مسلمانوں کی مسجد سے مشہابہ ہیں جس کی وجہ سے کئی مسلمان اس کو مسجد سمجھ کر دھوکہ میں یہاں نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں، لہذا اس کی موجودگی سے علاقائی سطح پر نقض امن اور ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔
اسی مقدمے میں نامزد افراد کی ضمانت کے لیے مذکورہ وکیل سٹی کورٹ گئے تھے جہاں وکیل اور دیگر کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا۔
ایک اور مقدمہ پریڈی تھانے میں درج کرایا گیا تھا جس میں مدعی عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ وہ نو ستمبر کی دوپہر ایک بجے پریڈی تھانے کی حدود سے گزر رہے تھے کہ ایک عمارت کو دیکھا اور اس میں نماز پڑھنے کے لیے جانے لگے تو پتا چلا یہ احمدی عبادت گاہ ہے، جس سے انھوں نے علما کرام کو آگاہ کیا اور 11 ستمبر کو متعلقہ تھانے پر جاکر اطلاع کر دی ۔
اس مقدمے سے قبل مقامی انتظامیہ کی ہدایت پر ایس ایچ او پریڈی نے فریقوں سے ملاقات کی تھی اور یہ رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ان کے تھانے کی حدود میں احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ 50 سے 60 سال پرانی ہے اور اس وقت سے اس پر گنبد موجود ہیں اور انھیں ایسی کوئی شہادت نہیں ملی کہ یہاں مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی قابل دست اندازی جرم نہیں ہوا۔
انجمن احمدیہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے شعبے کے انچارج عامر محمود کہتے ہیں کہ یہ المیہ ہے کہ والدین کے دیے ہوئے نام پر مقدمہ دائر کیا جائے۔ ان کے بقول یہ عمل معاشرے میں بڑھی ہوئی انتہا پسندی کو ظاہر کرتا ہے، اس نئے رجحان کے تحقت بہت سے احمدی افراد کے ناموں کو جواز بنا کر مقدمات دائر کیے جا رہے ہیں۔
عامر محمود کے مطابق احمدیوں کے قتل کے فتوے جاری کیے جا رہے ہیں اور ان کی برادری کو اجتماع اور تحریر و تقریر کی آزادی نہیں دی جا رہی۔
پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2022 میں توہین مذہب کے 35 مقدمات درج کیے گئے جن میں 171 افراد کو مورد الزام ٹھرایا گیا، 65 فیصد مقدمات پنجاب میں دائر کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ احمدیوں کی 92 قبروں اور 10 عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی جبکہ 105 احمدیوں پر مذہب کی بنیاد پر مقدمات دائر کیے گئے۔