’بعض اوقات انکاؤنٹر لازمی ہو جاتے ہیں۔۔۔‘: سسٹم کی وہ خامیاں جو پاکستان میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ بنتی ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 27, 2023

Getty Images

رواں برس 15 فروری رات ایک بج کر 45 منٹ پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی نیو مارگلہ روڈ پر پولیس ناکہ لگا ہوا تھا جہاں کل پانچ پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اسی اثنا میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد سیکٹر ڈی 12 کی طرف سے ناکے کی جانب آئے تو پولیس اہلکاروں نے انھیں ’مشکوک‘ سمجھتے ہوئے ٹارچ کی مدد سے رکنے کا اشارہ کیا۔

بجائے رُکنے کے موٹر سائیکل سوار وہاں سے بھاگنے کے لیے واپس مڑے اور اسی افراتفری میں ایک موٹر سائیکل پر سوار افراد اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور زمین پر گر پڑے۔ تاہم زمین سے اٹھتے ہی انھوں ںے اسلحہ نکالا اور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اسی دوران دوسرے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے بھی کلاشنکوف سے فائرنگ کی۔

مشتبہ افراد کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں ناکے پر موجود پولیس اہلکار منیر حسین کو دو فائر لگے تاہم بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے وہ بڑے نقصان سے محفوظ رہے۔

تاہم اس دوران ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر‘ دو مشتبہ موٹر سائیکل سوار زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے جبکہ ان کے باقی دو ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار ہو گئے۔ یہ دونوں زخمی بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

یہ کسی فلمی سین کا سکرپٹ نہیں بلکہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ میں پولیس مدعیت میں درج اس واقعے کا احوال ہے۔ پولیس کے دعوؤں کے مطابق ہلاک ہونے والے دونوں افراد وہی ملزمان تھے جنھوں نے چند ماہ قبل اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک خاتون کا ریپ کیا تھا۔

سالہا سال سے پاکستان کے مختلف شہروں میں رپورٹ ہونے والے پولیس انکاؤنٹرز پر درج مقدمات کی تحریر ہمیشہ سے ہی ملتی جلتی ہے جس میں عموماً مشتبہ ملزمان پہلے ’پولیس پر فائرنگ‘ کرتے ہیں اور بعدازاں ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کا نشانہ‘ بن کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور یوں ہائی پروفائل کیسز میں جرم ثابت کرنے اور سزا کے عمل سے گزرے بغیر ہی کیس بند ہو جاتے ہیں۔

مگر کیا اسلام آباد میں ہوئے انکاؤنٹر کی حقیقت بھی یہی تھی جس کا دعویٰ پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں کیا تھا یا کچھ اور؟

یاد رہے کہ ایف نائن پارک میں ریپ کا واقعہ 2 فروری 2023 کو پیش آیا تھا جب پارک میں اپنے ساتھی کے ساتھ چہل قدمی کے لیے آنے والی خاتون کو دو افراد نے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

ہلاک ملزم کو پولیس ’موٹر سائیکل چوری کیس میں پوچھ گچھ کے لیے لے گئی تھی‘

اس پولیس مقابلے میں ہلاک ملزمان میں سے ایک 18 سالہ اقبال نامی شخص بھی تھا۔ اقبال کے والد جاوید نے بی بی سی کو پولیس کے دعوے کے برعکس ایک الگ ہی داستان بیان کی۔

جاوید کے مطابق ان کے بیٹے اقبال کو 15 فروری کو دوپہر تین بجے کے قریب تین تھانوں کی پولیس تین گاڑیوں میں سیکٹر E-13 میں اس جگہ سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی جہاں وہ ایک زیر تعمیر مکان پر مزدوری کرنے میں مصروف تھے۔

جاوید کے دعوے کے مطابق اقبال کے بھائی اور ان کی والدہ نے پولیس سے پوچھا بھی کہ ’اسے کہاں اور کس جرم میں لے کر جا رہے ہیں تو پولیس والوں نے بتایا کہ ایک موٹر سائیکل چوری کا کیس ہے اس کی تفتیش کے لیے اس سے پوچھ گچھ کرنی ہے، پھر چھوڑ دیں گے۔‘

جاوید کے مطابق اسی رات ڈیڑھ بجے پولیس نے ان کے بیٹے اقبال کو انکاؤنٹر میں مار دیا اور بعدازاں دعویٰ کیا کہ وہ ریپ کیس کا مبینہ ملزم تھا۔

ایف نائن ریپ کیس کی متاثرہ لڑکی کی وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھیں ایف نائن پارک ریپ کیس کے ملزمان کا ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے‘ کا پولیس کا دعویٰ ’مضحکہ خیز‘ لگتا ہے۔

ایمان مزاری کے مطابق 15 فروری کو انھیں ساڑھے چار بجے کے قریب متاثرہ لڑکی کی کال موصول ہوئی کہ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور انھیں ملزمان کی شناخت کے لیے بلایا گیا ہے۔

’میں تقریباً چار بج کر 55 منٹ پر سی آئی اے آفس پہنچ گئی، میں نے وہاں باقاعدہ اپنا اندراج کروایا اور پھر اندر گئی لیکن تب تک متاثرہ لڑکی ملزمان کو شناخت کر چکی تھی۔‘

ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے مطابق انھوں نے پانچ بج کر 19 منٹ پر سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم کی سربراہ کو کال کی اور انھیں کہا کہ ملزمان آپ نے گرفتار کر لیے ہیں، اب ان کے میڈیکل وغیرہ کروائیں تاکہ کارروائی آگے بڑھائی جائے۔

اگلے روز یعنی 16 فروری کو میں ہائیکورٹ میں کسی کیس میں مصروف تھی، جب مجھے کسی نے بتایا کہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ پولیس نے ایف نائن پارک ریپ کیس کے ملزمان کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ میرے لیے چونکا دینے والی خبر تھی۔‘

ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے مطابق ان کی مؤکل کو 16 فروری کو دن 12 بجے دوبارہ پولیس نے فون کر کے ہلاک ملزمان کی شناخت کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) بلایا جہاں دوبارہ ملزمان کی شناخت کا عمل کروایا گیا۔

ایمان مزاری کے دعوے کے مطابق اقبال کے واقعات کی ٹائم لائن اور ہماری ٹائم لائن کافی حد تک ملتی جلتی ہے، جس سے پولیس کے دعوؤں کی نفی ہوتی ہے۔

جاوید کے مطابق انھوں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی درخواست دی ہے لیکن پولیس حکام انھیں اور ان کے خاندان کے لوگوں کے مسلسل ڈرا دھمکا رہے ہیں کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں۔

جاوید کے مطابق وہ پولیس کے ڈر سے بیوی بچوں کو لے کر پشاور چلے گئے ہیں۔

دوسری طرف ایف نائن پارک ریپ کیس کے ملزمان کی مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی جوڈیشل تحقیقات جاری ہیں۔

چیف کمشنر اسلام آباد کی طرف سے ایڈیشنل کمشنر اسلام آباد شہریار عارف ایف نائن پارک ریپ کیس کے ملزمان کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کے کیس کی انکوائری کر رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہریار عارف کا کہنا تھا کہ انھوں نے انکوائری کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے اور وہ جلد اس کی رپورٹ چیف کمشنر اسلام آباد کو جمع کروا دیں گے۔

شہریار عارف کے مطابق اس جوڈیشل انکوائری میں انھوں نے فریقین بشمول ہلاک ملزمان کے لواحقین اور پولیس اہلکاروں کو بلا کر تفصیل سے سنا ہے جس کے بعد وہ رپورٹ تیار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا وہ اس مرحلے پر اپنی فائنڈنگ کے متعلق کوئی بات نہیں کریں گے اور جیسے ہی وہ رپورٹ جمع ہو جائے گی تب وہ ایک پبلک ڈاکومنٹ ہو گی، جسے سب کے ساتھ شئیر بھی کیا جائے گا۔

BBC2 فروری 2023 کو اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں مبینہ ریپ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک نوجوان لڑکی اپنے دوست کے ساتھ وہاں چہل قدمی کرنے گئیپولیس انکاؤنٹرز میں ہلاکتوں کے اعدادوشمار

پولیس انکاؤنٹرز میں ملزمان کی مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکت کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب میں گذشتہ پانچ سال کے دوران یعنی 2018 تا 2022 ایک خاتون سمیت کل 612 ملزمان پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 57 رہی۔

پولیس کے مطابق یہ تمام ملزمان کسی نہ کسی سنگین جرم جیسے قتل، ریپ، بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ڈکیتی کے دوران ریپ وغیرہ جیسے جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے۔

گذشتہ پانچ سال کے دوران سب سے زیادہ پولیس انکاؤنٹر سال 2020 اور2021میں رپورٹ ہوئے جب کل ملا کر 186 ملزمان کو ہلاک کیا گیا۔

ان پانچ سال کے دوران سب سے زیادہ انکاؤنٹرز فیصل آباد میں رپورٹ ہوئے جہاں 73 ملزمان ہلاک ہوئے۔ اسی طرح پنجاب کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر لاہور اعداد و شمار کے لخاط سے دوسرے نمبر پر رہا جہاں 65 پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں ضلع نارووال ایک ایسا ضلع تھا، جہاں گذشتہ پانچ سال کے دوران ایک بھی پولیس مقابلہ رپورٹ نہیں ہوا۔

اسی طرح ان انکاؤنٹرز کے خلاف کل 544 مقدمات رجسٹر ہوئے، جن میں سے صرف 9 متاثرہ خاندانوں نے درج کروائے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ان پولیس انکاؤنٹرز کے خلاف کل 40 انکوائریاں پولیس اہلکاروں کے خلاف شروع کی گئیں۔

دوسری طرف پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کی پولیس کے سال2021 سے سال 2022 کے سرکاری اعداد و شمارکے مطابق 50 سے زائد پولیس انکاؤنٹرز رپورٹ ہوئے جن میں 20 ملزمان جبکہ تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔

لاہور کے علاقے چوہنگ میں ہونے والا انکاؤنٹرGetty Imagesگذشتہ پانچ سال کے دوران سب سے زیادہ پولیس انکاؤنٹر سال 2020 اور2021 میں رپورٹ ہوئے جب کل ملا کر 186 ملزمان کو ہلاک کیا گیا

جس طریقے سے ایف نائن پارک ریپ کیس میں پولیس کے دعوے کے مطابق ملزمان اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے اسی طرح کا ملتا جلتا ایک کیس لاہور کے علاقے چوہنگ میں بھی سال 2022 میں رپورٹ ہوا لیکن اس میں ملزمان پر الزامات کی نوعیت مختلف تھی۔

رانا محمد عاشق کے بقول ان کے جوان بیٹے کی ہلاکت کی خبر سُن کر اس کی ماں بھی اس غم میں بیمار ہو گئی اور دو ہفتے کے اندر اندر فوت ہو گئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بنیادی طور پر دو قتل ہیں جو پولیس نے کیے۔ میرے بیٹے نے ایسا کیا کر دیا تھا جو پولیس والوں نے ایسا وقوعہ بنا کر اسے مار دیا۔‘

رانا محمد عاشق نے اپنے بیٹے عبد الرحمان کی گرفتاری کے بارے میں بتایا کہ جب پولیس ٹیم ان کے گھر سے نکلی تو کچھ دیر بعد انھیں فائرنگ کی آوازیں آئیں۔

’ہم سمجھے شاید ویسے ہی کوئی فائرنگ کر رہا ہے لیکن اگلے روز جب ہم بیٹے سے ملنے تھانے پہنچے تو پتا چلا کہ وہ تو رات کو پولیس انکاؤنٹر میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ چوہنگ میں مارا گیا۔ اس پر تشدد ہوا تھا، کرنٹ لگنے کے نشانات جسم پر موجود تھے اور اس کے کندھے بھی ٹوٹے ہوئے تھے جبکہ اس کے سر اور سینے پر گولیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔‘

رانا محمد عاشق تب سے مختلف عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ انھیں انصاف ملے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بیٹے پر لگنے والے الزامات سے بھی انکار کرتے ہیں۔

ان کے بقول کچھ سال قبل ان کا بیٹا عبد الرحمان پہلی مرتبہ موبائل چوری کے ایک مقدمے میں گرفتار ہوا تھا لیکن پولیس نے اس کا نام کئی نامعلوم مقدمات میں ڈال دیا۔

رانا محمد عاشق کے مطابق اگر ان کے بیٹے پر کیسز تھے بھی تو اس پر تفتیش ہوتی، معاملہ عدالت میں بھجوایا جاتا اور پھر عدالت جو بھی فیصلہ کرتی وہ اسے قبول کرتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس والے کون ہوتے ہیں اس طرح سے قتل کرنے والے؟ سزا دینا پولیس کا کام نہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔‘

اس مبینہ پولیس مقابلے پر بات کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور ایڈیشنل آئی جی بلال صدیق کمیانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر متعلقہ فیملی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ ہمارے پاس آئیں اور ہم ان کی شکایت پر کارروائی کریں گے۔ ’فیملی اپنے جائز مطالبات تحریری طور پر ہمیں دے، ہم ان کو سنیں گے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’کچھ دن پہلے بھی ہم نے ایک انسپکٹر کے خلاف ایک ایسے ہی کیس میں پرچے کا حکم دیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ایف نائن ریپ کیس: مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزمان کے ورثا کا تحقیقات کرانے کا مطالبہ

پنجاب میں مبینہ پولیس مقابلے: ’پولیس انکاؤنٹر ہمیشہ آخری آپشن ہوتا تھا لیکن اب پہلا آپشن بن چکا ہے‘

’فوجی میرے شوہر کو پوچھ گچھ کے لیے لے کر گئے، چار دن بعد اس کی لاش ملی‘

Getty Imagesسالہا سال سے پاکستان میں رپورٹ ہونے والے پولیس انکاؤنٹرز پر درج مقدمات کی تحریر ہمیشہ سے ملتی جلتی ہے

مگر یہاں اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہوتے ہیں جن کا نتیجہ پولیس انکاؤنٹرز کی شکل میں نکلتا ہے؟

Getty Images’مدعی ڈر کی وجہ سے کیس کی پیروی نہیں کرتے یا صلح کر لیتے ہیں‘

سی آئی اے پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ بعض قانونی پیچیدگیوں کے علاوہ بھی پولیس انکاؤنٹر اس لیے لازمی ہو جاتے ہیں کیونکہ مدعی ڈر کی وجہ سے کیس کی پیروی نہیں کرتے یا دباؤ کے تحت صلح کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے ملزمان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔

اُن کے بقول پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 392 اور 395 کے کیسز میں اکثر ملزمان نامعلوم ہوتے ہیں اور جب پولیس ان کو پکڑتی ہے تو 24 گھنٹے کے اندر اندر انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے جس کے بعد انھیں شناخت پریڈ کے لیے جیل بھجوایا جاتا ہے۔

’ڈکیٹی کے ملزمان کو 10 دیگر ملزمان کے ساتھ کھڑا کر کے مجسٹریٹ کی موجودگی میں مدعیوں کو لایا جاتا ہے اور کسی وجہ سے اگر وہ اپنے ملزمان شناخت نہ کر سکیں تو انھیں اسی وقت ڈسچارج کر دیا جاتا ہے۔ اگر ڈکیٹی کے ملزمان کی شناخت پریڈ نہ کروائیں تو ملزمان کی چند ہفتوں میں ضمانت ہو جاتی ہے۔‘

سابق سی سی پی او کوئٹہ اور ایڈیشنل آئی جی ریٹائرڈ عبد الرزاق چیمہ کہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کے حامی نہیں رہے بلکہ الٹا اس کے نقصانات ہی ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق پولیس مقابلوں سے وقتی طور پرتو شاید کرائم ریٹ کم دکھائی دے سکتا ہے لیکن ایسے نہ تو مجرم کم ہوتے ہیں اور نہ ہی جرائم بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی قانون بنانا حکومت کا اختیار ہے، اس پر عمل درآمد کا کام پولیس کا ہوتا ہے جبکہ اس پر فیصلے کا اختیار عدالت کے ذمے ہے۔

’لیکن جب قانون پاس ہوتا ہے تو اس پر عملدرآمد کے وقت پولیس کے پاس بہت اختیار ہوتا ہے اور یہ پولیس کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ اس قانون پر 100 فیصد، 50 فیصد، 20 فیصد یا بالکل بھی عمل کرے یا نہ کرے۔ اس صوابدید کو نگرانی، پولیس کی تعلیم و تربیت اور احتساب سے بہتر کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف ترجمان پنجاب پولیس ڈی آئی جی وقاص نذیر نے اس سلسلے میں بتایا کہ پولیس کی انکاؤنٹرز کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم ایسے معاملات کو سپورٹ نہیں کرتے اور اگر کوئی پولیس اہلکار ملوث پایا جائے تو ہم سخت کارروائی بھی کرتے ہیں۔‘

Getty Imagesایف نائن پارک ریپ کیس کے ملزمان کی مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی جوڈیشل تحقیقات جاری ہیں’مسئلے کی جڑ ملک کا نظام انصاف‘

اس طرح کے کیسز پر کام کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ پولیس انکاؤنٹرز جیسے مسئلے کی جڑ ملک کا نظام انصاف ہے۔

ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے مطابق پولیس انکاؤنٹر یا دوران حراست قتل کو ثابت کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ انکوائری کے سارے ذرائع ریاست یا ریاستی اداروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور جب ریاست خود ملزم ہو جیسا کہ ان کیسز میں ہوتا ہے تو ثبوت جمع کرنے میں مشکلات رہتی ہیں۔

’ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ورنہ دوسروں کو بھی ترغیب ملتی ہے کہ وہ جو مرضی کر لیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘

سابق سیشن جج اللہ بخش رانجھا کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کیسز کو پولیس اور پراسیکیوشن خراب کرتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس صحیح طریقے سے شواہد جمع نہیں کرتی اور نہ ہی ان شواہد کو لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے وقت پر بھجوایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پراسیکیوشن قانون کے مطابق سزا کے لیے ضروری شواہد اور عمل کو پورا ہی نہیں کر پاتی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں بڑے ادب سے کہوں گا کہ ججوں کی بھرتی معیار کے مطابق نہیں۔ نہ جج صاحبان کی ٹریننگ معیار کے مطابق ہے، جس کی وجہ سے فیصلے تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب تو کوئی بندہ بغیر تعلق کے شہادت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ کوئی آدمی گواہی دینے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ جرائم پیشہ لوگوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے گواہان اپنے بیانات سے مکر جاتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More