لوسی ہمفری اپنے ساتھی اور اپنے دو کتوں کے ساتھ جب ساحل سمندر کی سیر کے لیے نکلیں تو ان کے پاس شاید زندگی کے گنتی کے سال ہی رہ گئے تھے۔
لیکن ساحل پر ان کے پالتو کتوں میں سے ایک نے ایک ایسے شخص کو 'منتخب' کیا جس سے اتفاقی ملاقات کے سبب لوسی کی جان بچ گئی۔
لوسی لیوپس کے مرض سے تقریبا ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے نبرد آزما تھیں جس کی وجہ سے ان کے گردے ناکام ہونے لگے تھے اور وہ ڈائلیسس پر تھیں۔ لیوپس ایک ایسی بیماری ہے جو دل، پھیپھڑوں، جگر، گردوں اور جوڑوں میں سوزش کا باعث بنتی ہے اور اس کی وجہ سے گردے کام چھوڑنے لگتے ہیں۔
ڈائلیسس کے باوجود سنہ 2019 میں انھیں بتا دیا گیا تھا کہ ٹرانسپلانٹ کے بغیر اب وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔
اس سے کچھ دن قبل 44 سالہ لوسی اور ان کے 49 سالہ ساتھی سینیڈ اوون نے اپنے ڈوبرمین نسل کے جوڑے، جیک اور انیڈی نامی کتوں کے لیے ایک ویگن خریدی تھی تاکہ اپنے کتوں کو ہفتے کے دنوں سیر کے لیے لے جا سکیں۔ لوسی اور اوون دونوں ویلز کی ایک کاؤنٹی، کیرفلی سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن اس گاڑی کو استعمال کرنے کا منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا کیونکہ لوسی کو علاج کے لیے جانا پڑگیا۔
ساحل سمندر کی تبدیلی
انھوں نے لوسی کے گردے فیل ہونے کے ساڑھے چار سال بعد جون سنہ 2021 میں ویلز کے ایک اور قصبے ایبری سٹویتھ میں دو دن کی چھٹیاں گزارنے کا منصوبہ بنایا۔
لیکن وہ اتنی بیمار تھیں کہ اتنی دور کا سفر نہیں کر سکتی تھیں۔ لہذا انھوں نے وہاں جانے کے بجائے ساؤتھ ویلز میں بیری کے قریب ترین کولڈ نیپ نامی ساحل پر جانے کا فیصلہ کیا۔
لوسی اور سینیڈ نے اپنے موٹر ہوم کو ساحل سمندر کے سامنے پارک کیا اور دونوں اپنے کتوں کے ساتھ باربی کیو تیار کرنے لگے۔
لوسی کا کہنا ہے کہاس دوران 'اینڈی اس عورت کے پاس پہنچ گئی جو ان سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھی۔
'وہ بار بار ان کے پاس جاتی رہی اور ہم اسے بار بار بلاتے رہے کہ ہم جہاں تھے وہ وہاں واپس آجائے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا ڈوبرمین (نسل کا کتا)کسی کے لیے بھی تھوڑے خوف کا باعث ہو سکتا ہے۔
'ہم نے سوچا کہ اس کے پاس کھانا ہے یا کچھ اور ہے اس لیے اینڈی اسے بار بار اسے پکار رہی تھی۔ یہاں تک کہ ہم اس (خاتون) سے معافی مانگنے کے لیے اس کے قریب چلے گئے۔'
'اس کے لیے جسے اس کی ضرورت ہے'
وہ اجنبی 40 سالہ خاتون کیٹی جیمز تھیں اور وہ بیری کی رہائیشی تھیں۔
وہ ساحل سمندر پر بیٹھی کروشیے سے کڑھائی کر رہی تھیں اور وہاں جانے پر پتا چلا کہ اینڈی کے قریب جانے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لوسی کہتی ہیں کہ 'دراصل، وہ کافی مشکل وقت گزار رہی تھیں، اس لیے میں نے انھیں اپنے کھانے پر مدعو کر لیا۔
'وہ آئیں اور ایک مشروب لائیں جس میں سے مجھے بھی پیش کیا۔‘
'سینیڈ نے انھیں بتایا کہ میں پی نہیں سکتی کیونکہ میں ڈائلیسس پر ہوں۔ تو اس نے پوچھا، 'اوہو، اور وہ کس لیے' تو سینیڈ نے بتایا کہ ہم گردے کے ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں۔'
صدمے کے ساتھ کیٹی نے اس جوڑے سے کہا: 'میں نے ابھی گردے کے عطیہ کے لیے اپنا نام رجسٹر کروایا ہے!'
ان کی اس بات پر سینیڈ نے پوچھا کہ 'آپ اپنا گردہ کس کو عطیہ کرنے جا رہی ہیں؟'
کیٹی نے جواب دیا: 'جس کو اس کی ضرورت ہو۔'
کیٹی اور لوسی نے ایک دوسرے سے ان کے فون نمبرز لیے اور اگلے دن ایک ایسے شخص سے رابطہ کیا جو گردے عطیہ کرنے والے اور گردہ ببدلنے کے خواشمند لوگوں کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ماہرِ معاشیات جس نے گردے عطیہ کرنے کے طریقے میں انقلابی تبدیلی برپا کی
ہندو خاتون جو مرنے سے قبل ایک مسلمان نوجوان کو نئی زندگی بخش گئیں
وہ کہتی ہیں کہ 'کیٹی نے تمام ٹیسٹ کرائے اور پتہ چلا کہ وہ (لوسی کے ساتھ میچ کرنے کے لیے) ایک بہترین ڈونر تھیں۔'
وہ مزید کہتی ہیں: کہ 'ایک سرجن نے ہمیں بتایا کہ کامل میچ تلاش کرنے کے 22 ملین میں سے ایک ہی موقعہ ہوتا ہے اور مجھے اسی کی ضرورت تھی کیونکہ مجھے لیوپس (بیماری) تھی۔
'ٹرانسپلانٹ ہونے میں تھوڑا سا وقت لگا، کیونکہ اس وقت کووڈ کا معاملہ جاری تھا اس لیے اآپریشن میں تاخیر ہوتی رہی۔'
رابطے میں رہنا
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کیٹی نے 'دی کڈنی گینگ' کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا۔
سینیڈ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'وہ ہمیں اپنے ہسپتال کے تمام دوروں کے بارےبتاتی رہتی تھیں، ہمیں صوتی پیغامات اور تصاویر بھیجتی رہیں۔‘
'میرے پاس اب بھی تمام ریکارڈنگ موجود ہے کہ وہ کتنی پرجوش تھی کیونکہ وہ ایک اچھا کام کر رہی تھی۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ ایک بالکل اجنبی نے ایسا کیا اور لوسی نے اپنی زندگی واپس حاصل کر لی۔'
لوسی کہتی ہیں کہ ’آپریسن سے پانچ برس پہلے سے میں کچھ (شراب) نہیں پی سکتی تھی اور میرا کھانا پینا سب بہت محدود تھا۔ اور اب ہم جو چاہیں کھا پی سکتے ہیں اور اور ہم اپنی معمول کی زندگی پر واپس آنا شروع کر رہے ہیں۔'
لوسی نے کہا کہ آپریشن کے ابتدائی چند ہفتوں والی پیچیدگیوں کے باوجود 3 اکتوبر 2022 کو کارڈف کے یونیورسٹی ہاسپیٹل آف ویلز میں ہونے والا ٹرانسپلانٹ کامیاب رہا۔
کیٹی نے بتایا: 'ہم اتوار کو اکٹھے اندر گئے، اور سوموار کی صبح وہ ہمیں نیچے لے گئے، میرا گردہ نکالا، اور اسے لوسی میں ڈال دیا۔۔۔ اور ہو گيا!'
امید
کیٹی کہتی ہیں کہ 'میں لوسی سے مل کر بہت خوش قسمت محسوس کرتی ہوں، میں جانتی ہوں کہ اب وہ اپنی زندگی گزار رہی ہیں اور جہاں تک میرا سوال ہے تو مجھے کوئی بھی دقت نہیں ہوئی۔'
کیٹی کا کہنا تھا کہ ’مجھے خود پر بہت فخر ہے، لیکن کبھی کبھی میں شرمندہ بھی ہو جاتی ہوں کہ جب بھی میں اپنی دادی کے ساتھ باہر جاتی ہوں تو وہ کسی بھی اجنبی سے کہتی ہیں: 'میری پوتی نے ایک گردہ عطیہ کیا ہے۔'
'یہ سب سے اچھی چیز ہے جو میں نے اب تک کی ہے اور مجھے اپنے آپ پر بہت فخر ہے اور میرے خاندان کو مجھ پر فخر ہے۔'
دوسری جانب لوسی کہتی ہیں کہ 'در حقیقت اینڈی نے ہی انھیں دریافت کیا تھا اوران کا انتخاب کیا تھا۔'
'مجھے کچھ سال پہلے بتایا گیا تھا کہ میرے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف پانچ سال ہیں، (کیونکہ) ڈائلیسس ہمیشہ کے لیے کام نہیں کرتا اور اس کے علاج کی بھی ایک حد ہوتی ہے جو وہ آپ کو دے سکتے ہیں۔‘
'مجھے واقعی اس ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی، میں کئی سال سے انتظار کرنے والوں کی فہرست میں شامل تھی۔ میری زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔'
سینیڈ نے کیٹی کو ایک 'حیرت انگیز، بے لوث شخص' کے طور پر بیان کیا۔
تاہم، انھوں نے کہا کہ 'اسے میرے لطیفے پسند نہیں ہیں، اور اس نے کہا کہ اگر میں اسے لطیفے سنانا بند نہیں کرتا تو وہ اپنا گردہ واپس لے لیں گی۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'ہم اتفاق سے ہی بیری کے ساحل پر گئے، اتفاق سے ہی کیٹی سے ملے، اور بالآخر لوسی کو ایک گردہ مل گیا۔
'ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ہمیشہ امید رکھنی چاہیے۔ کبھی ہمت نہ ہاریں، کیونکہ آپ کو معلوم نہیں کہ کب کیا ہو جائے۔ ہم تو اس دن ساحل سمندر پر بھی نہیں جا رہے تھے۔ دنیا میں بہت سارے اچھے لوگ موجود ہیں۔'