پچاس سالہ کرکٹ کے ’بھگوان‘ سمجھے جانے والے ’لٹل ماسٹر‘ کا دل آج بھی 16 سال کا ہے

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2023

Getty Images

آج جب سوشل میڈیا سچن تندولکر کی پچاسویں سالگرہ کا جشن منا رہا ہے، مجھے سچن کے متعلق ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو ایک دہائی سے زیادہ پرانا ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب انڈیا نے سنہ 2011 کا ون ڈے ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس وقت تندولکر بین الاقوامی کرکٹ میں سنچریوں کی سنچری مکمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایک دن میرے دوست کے سات سالہ بیٹے نے پوچھا، 'سچن نے آئی پی ایل میں کتنی سنچریاں بنائیں؟'

یہ ایک معصوم سا سوال تھا، جس پر نہ تاریخ کا سایہ تھا اور نہ ہی ورثے کا بوجھ۔ ، چانچہ میں نے قدرے ہچکچاتے ہوئے کہا۔۔۔ '۔۔۔ایک'۔ بچے نے حیرت سے پوچھا، 'صرف ایک؟'

اس کے معصومانہ سوال پر میں حیران ضرور تھی لیکن خوش بھی۔

اس سکول کے بچے نے سنہ 2011 کے ورلڈ کپ میں سچن کی شاندار اننگز دیکھی تھی۔

پھر بھی ان کی نظروں میں سچن تندولکر کی وہی تصویر تھی جب کہ اس وقت سچن تندولکر کرکٹ کی تاریخ میں انڈیا کے سب سے بڑے سٹار تھے۔

Getty Imagesکرکٹ کا ’بھگوان‘

یہ سوشل میڈیا اور سیلف پروموشن سے پہلے کا دور تھا۔ آج جب سچن تندولکر ممبئی انڈینز کی ٹیم کے ڈگ آؤٹ پر پہنچتے ہیں، یا اشتہارات اور انسٹاگرام پر نظر آتے ہیں، تو میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ سات سال کے بچے اب سچن تندولکر کو کیسے دیکھیں گے؟

رواں سال نومبر میں سچن تندولکر فعال کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے دس سال مکمل کر لیں گے۔

نوعمروں کے لیے وہ صرف ایک ایسے سابق کھلاڑی ہیں جن کے بارے میں سیانےکہتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کھلاڑی تھے۔

ان کے لیے سچن سنہ 1989 سے 2013 تک کرکٹ کے بھگوان نہیں، جیسا کہ کروڑوں کرکٹ شائقین انھیں آج بھی اسی طرح یاد کرتے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کے لیے وہ 2023 کے سابق کرکٹر ہیں۔

آج کے نوجوان دھونی، کوہلی اور روہت شرما کے دور میں پروان چڑھے ہیں، جو گراؤنڈ کے چاروں طرف شاٹس والی بیٹنگ کرتے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی کے دور میں ان نوجوانوں نے ان کھلاڑیوں کو ہر گیند پر زبردست شاٹ مارتے دیکھا ہے جو کبھی کبھی گراؤنڈ کے ان کونوں تک پہنچ جاتی ہے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ تندولکر نے ایسے شاٹ نہیں لگاتے تھے۔

Getty Imagesجادوئی اعداد و شمار

ایسا نہیں ہے کہ سچن تندولکر نے ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں کھیلے۔ وہ چھ سیزن تک ممبئی انڈینز کے لیے کھیلے۔

سچن نے 78 میچوں میں 2334 رنز بنائے۔ ان میں پچاس نصف سنچریاں اور ایک سنچری شامل تھی۔ آئی پی ایل کے ان 78 میچوں میں سچن تندولکر کا 119.31 کا اسٹرائیک ریٹ اور 34.83 رنز کی اوسط تھی۔

جب آئی پی ایل شروع ہوا تو سچن تندولکر اپنے بین الاقوامی کریئر کے 19ویں سال میں تھے۔

آئی پی ایل کے پہلے سیزن کے دوران وہ 35 سال کے ہو گئے۔ آئی پی ایل میں سچن تندولکر کا بہترین سیزن 2010 تھا۔

پھر ممبئی انڈینز کی ٹیم پہلی بار فائنل میں پہنچی۔ تاہم وہ فائنل میں چنئی سپر کنگز سے ہار گئے۔

اس وقت 37 سالہ تندولکر نے ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 180 کا جادوئی ہندسہ عبور کیا تھا۔

یہ ٹی ٹوئنٹی میں کسی بھی بیٹسمین کی اوسط اور اس کے سٹرائیک ریٹ کا مجموعہ ہے جسے ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ایک بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔

سنہ 2010 میں سچن آئی پی ایل کے ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی بنے۔ انھوں نے اس سیزن میں 47.53 کی اوسط اور 132.61 کے سٹرائیک ریٹ سے 618 رنز بنائے۔ یہ آئی پی ایل میں ان کی بہترین کارکردگی تھی۔

Getty Imagesآج بلے بازوں کا کیا حال ہے؟

سچن کرکٹرز کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جب سفید گیند کے ٹی ٹوئنٹی میچز، ریڈ بال ون ڈے اور ٹیسٹ میچ کمائی اور شہرت کے معاملے میں حاوی ہونے لگے تھے۔

کچھ سال پہلے، سچن کی 47 ویں سالگرہ کے موقع پر ای ایس پی این کرک انفو کے لیے ایک انٹرویو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ آج سے 25 سال چھوٹے ہوتے تو وہ کیسے بلے باز ہوتے؟

اس پر انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹنگ میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے۔ کوئی ریمپ شاٹ نہیں لگاتے، کوئی سوئچ ہٹ نہیں کرتے۔

سچن نے بتایا کہ انھوں نے یوٹیوب پر اپنی ابتدائی اننگز کی ویڈیوز دیکھی ہیں اور انھیں یقین ہے کہ انھیں بیٹنگ کے ان نئے طور طریقوں کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سچن تندولکرکی اپنی پہلی گاڑی کی کھوج کے لیے مداحوں سے مدد کی اپیل

ڈی آر ایس تنازع: ’بالآخر کوہلی نے ثابت کر دیا کہ سعید اجمل بالکل صحیح تھے‘

وراٹ کوہلی کی میراث: ’کارنرڈ‘ کپتان کے لیے کپتانی چھوڑنا ہی واحد آپشن کیوں تھا؟

انھوں نے بتایا کہ ایک نوجوان کھلاڑی کے طور پر بھی ان کی ذہنیت اور ان کے پاس ایسےشاٹس تھے جو ٹی 20 میں انھیں ایک کامیاب کرکٹر بنا سکتے تھے۔

میرے سوال کے جواب میں سچن تینڈولکر نے کہا کہ اگر میں اسی طرح کھیلتا رہوں (جیسا کہ کھیلتا تھا) تو باؤنڈری لائن پچ سے صرف 70 گز کے فاصلے پر ہے۔

Getty Imagesکرشماتی بلے باز

سچن نے کہا کہ بار بار گیند کو باؤنڈری سے باہر مارنے کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ’آپ کو پچ کی نوعیت کے مطابق کوشش کرتے رہنا ہوگا۔ ہر پچ مختلف ہوتی ہے۔

’آپ کو خود کو پچ کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ میں پچ کے مزاج کے مطابق اپنا ذہن اور کھیل بدل لیتا۔‘

میں نے سچن کے جتنے بھی انٹرویو کیے ہر بار مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ ایک ایسے شخص سے بات کر رہے ہیں جس کی رگوں میں کرکٹ دوڑ رہا ہے۔

ویسے انگریزی لفظ Nerd کا اردو میں مطلب 'پڑھاکو' ہے۔ لیکن، سچن کے معاملے میں آپ کو یاد رکھنا ہو گا کہ ان کی تمام تعلیم کرکٹ کے کھیل اور کرکٹ کے میدان کے بارے میں تھی۔

یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آج کے دور کی ضرورت کے مطابق وہ ہر گیند پر رنز بنانے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے۔

جب سچن سے ون ڈے میں اننگز کا آغاز کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے ایسا ہی کیا۔

اپنے ون ڈے کریئر کے پہلے دس سالوں میں، سچن اپنے دور کے زیادہ تر کھلاڑیوں سے زیادہ سٹرائیک ریٹ (86.78) سے سکور کر رہے تھے۔ اس دوران انھوں نے 24 سنچریاں اور 44 نصف سنچریاں سکور کیں۔

ایک دن ممبئی کے سابق اوپنر زوبن بھروچا اور اب راجستھان رائلز ٹیم کے ہائی پرفارمنس ڈائریکٹر کسی اور معاملے پر بات کر رہے تھے۔

جب سچن سے ایک نوجوان کے طور پر آئی پی ایل فارمیٹ میں ڈھلنے کے بارے میں پوچھا گیا تو زوبین ہنس پڑے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ سوال ہی بے معنی ہے۔‘

بھروچا نے گھنٹوں آئی پی ایل میچوں میں ’بلے سے نکلنے والے شاٹس‘ دیکھے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں، کوئی بھی گیند کو مار سکتا ہے، اے بی ڈیویلیئرز، کیون پولارڈ۔۔۔یا کوئی اور۔ یہ سب بہت اچھے کھلاڑی ہیں۔

’تاہم، سچن تندولکر کی بلے بازی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی دور میں ہوتے، وہ ایک کامیاب بلے باز ہوتے۔ چاہے وہ اپنے دور سے پہلے کے زمانے میں ہوتے یا بعد میں۔‘

Getty Imagesگیند کا ایک لمحے تک انتظار

زوبن بھروچا کہتے ہیں کہ ’جس طرح سے گیند بلے سے ٹکرا کر نکلتی۔۔۔ اس کی ٹائمنگ ہوتی تھی۔۔۔ بلے اور گیند کے ٹکرانے سے جو آواز آتی تھی۔۔۔ میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ نہیں معلوم وہ کیا ہوتاتھا۔ وہ یقیناً خدا کا عطیہ تھا۔‘

'وہ ضرور کوئی جادوئی ہنر رہا ہوگا۔ کہ گیند کا کچھ لمحہ انتظار کرنا۔۔۔ یہ صرف ان کے ساتھ ہی ہوسکتا تھا۔ یہ ایک ایسا کرشمہ تھا جسے آپ نقل نہیں کرسکتے، کسی کو نہیں سکھا سکتے۔ یقیناً یہ جادو تھا۔ جو بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔'

جیسا کہ کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک نسل آتی ہے، دوسری نسل جاتی ہے۔ لیکن، جو لوگ ایک خاص نسل کے ساتھ پلے بڑھے ہیں وہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دور کے کھلاڑی پہلے دور کے کھلاڑیوں سے بہتر تھے۔

زیادہ ہنر مند، مضبوط، تیز اور زیادہ مستقل مزاج کھلاڑی اور انھوں نے وہ کیا جو انڈین کرکٹ کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔

ہم نے روی شاستری کو کئی بار یہی کہتے سنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وراٹ کوہلی کے مداح ان کے لیے ون ڈے کرکٹ میں مزید چار سنچریاں بنانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں جس کے بعد وہ سچن کے 49 ون ڈے سنچریوں کے عالمی ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

سچن تندولکر کے دور کے لوگ کوہلی کی عزت کرتے ہیں اور ان کی کامیابیوں کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ لیکن، وہ دونوں کھلاڑیوں کا موازنہ کرنا درست نہیں سمجھتے۔

آشیش نہرا نے تقریباً دس سال قبل کرکٹ میں آنے والی بڑی تبدیلی کے بارے میں بتایا تھا، جس کی وجہ سے بلے بازوں کو برتری حاصل ہوئی۔

نہرا نے کہا تھا: 'سنہ2012 کے بعد بڑی تبدیلی یہ آئی کہ ایک میچ میں دو نئی گیندوں کا استعمال کیا جانے لگا جس کی وجہ سے گیند ریورس سوئنگ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاور پلے کے اصولوں کے تحت دائرے کے باہر صرف چار فیلڈرز کو تعینات کیا جاتا ہے۔ پہلے دس اوورز میں دائرے سے باہر صرف دو کھلاڑی تعینات کیے جاتے ہیں۔'

تندولکر کے بعد کے دور میں کھیل کا ماحول بلے بازوں کے لیے زیادہ دوستانہ ہو گیا ہے۔

تندولکر نے اپنے بین الاقوامی کریئر میں 50 ہزار سے زائد گیندوں کا سامنا کیا۔ لیکن ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ کھلاڑی سوچ رہا ہے کہ اگر یہ نئے قوانین ان کے دور میں ہوتے تو وہ مزید کتنے رنز بنا چکے ہوتے۔

سچن آج پچاس سال کے ہو رہے ہیں۔ لیکن جب بات کرکٹ کی ہو تو ان کا دل ہمیشہ اس 16 سالہ لڑکے کی طرح رہے گا جو 15 نومبر 1989 کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم پویلین سے نکل کر میدان پر اترا تھا اور اس نے انڈیا کے لیے اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More