قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ پنجاب میں الیکشن کرانے کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز کے اجرا کا معاملہ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو بھیج دیا ہے جس کے بعد قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی۔پیر کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت ہوا۔رُکن برجیس طاہر نے اجلاس کو بتایا کہ کمیٹی نے 13 اپریل کو دو گھنٹے غور کے بعد متفقہ طور پر منی بِل کو مسترد کر دیا تھا۔ ’ہمارا موقف تھا کہ پنجاب میں پہلے انتخابات سے باقی صوبوں کے انتخابات پر اثر پڑے گا، یہ موقف تبدیل نہیں ہوا۔‘ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس کیا اختیارات ہیں، پہلے انھوں نے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کر کے ہمارا بیڑا غرق کیا۔’سپریم کورٹ کس طرح سٹیٹ بینک کو پیسے ریلیز کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ چیئرمین صاحب آپ کو اس اجلاس بلانے سے قبل ہم سے مشاورت کرنا تھی۔‘وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’اراکین اسمبلی کی منظوری کے بغیر فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے رقم جاری نہیں کی جا سکتی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے منی بل مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اب ہدایت کی ہے سٹیٹ بینک یہ رقم فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے رقم پیدا کرے۔‘وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ سٹیٹ بینک رقم جمع کر کے منظوری کے لیے وزارت خزانہ کو بھجوائی گی۔وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اب 21 ارب روپے کی رقم دیگر اخراجات میں پاس کروائی جائے گی۔ یہ رقم فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے نکل کر الیکشن کمیشن کو دے دی جائے۔’قانون کے تحت اس رقم کے استعمال کے لیے قومی اسمبلی سے منظوری لینا ضروری ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملہ قومی اسمبلی میں پیش ہونا چاہیے۔‘برجیس طاہر نے کہا کہ ’آئین میں کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا آڈر آئے گا اور سٹیٹ بینک تابعداری کرے گا۔‘کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ سٹیٹ بینک سے بھی پوچھ لیں کہ انہوں نے کیا جواب دیا ہے۔قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک سیما کامران نے بتایا کہ ’ہمیں سپریم کورٹ کا حکم آیا ہم پیش ہوئے، ہم نے بتایا کہ ہم پیسے مختص کر سکتے ہیں مگر ٹرانسفر کرنے کی اجازت وزارت خزانہ دے گی۔‘رُکن خالد مگسی نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ پیسے کے استعمال کی کون اجازت دیتا ہے۔وزیر قانون نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایکس پوسٹ فیکٹو اجازت لے لی جائے۔اٹارنی جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ’آئین کے تحت فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے رقم کے استعمال کی منظوری وزیراعظم کی جانب سے دی جا سکتی ہے، دوسری صورت میں رقم کے استعمال کو اخراجات بنا کر منظوری لی جا سکتی ہے۔‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کی منظوری قومی اسمبلی سے لی جائے گی۔ قومی اسمبلی نے منظوری نہ دی تو اس کی ایکس پوسٹ فیکٹو منظوری مشکل ہو جائے گی اس لیے پہلے قومی اسمبلی سے پہلے منظوری لی جائے۔قومی اسمبلی ایک بار پہلے بھی پنجاب میں الیکشن کے لیے رقم کے اجرا کے بل کو مسترد کر چکی ہے۔ فوٹو: اردو نیوزاٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی وزارت خزانہ کو قانونی طریقہ کار مکمل کرنے کا کہے۔ پہلے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے اس کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے۔‘وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ ’ہم قانون کے مطابق ہی عملدرآمد کریں گے، سمری کو وفاقی کابینہ کو بھیج دیتے ہیں۔‘اٹارنی جنرل کے مطابق کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ایگزیکٹیو اتھارٹی نے کرنا ہے، کمیٹی وزارت خزانہ کو آئین اور قانون کے مطابق عملدرآمد کا کہے۔وزیر قانون نے کہا کہ اداروں کا ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے۔وزیر تجارت اور کمیٹی کے رُکن نوید قمر نے کہا کہ ’آئین میں پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ کا کردار ہے۔ پارلیمنٹ کا کام ہے قانون سازی کرنا اور رقم کے استعمال کی اجازت دینا۔‘سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ کوشش ہو رہی ہے کہ پارلیمنٹ سے بجٹ بنانے اور رقم استعمال کرنے کا استحقاق لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کے حکام کو توہین عدالت سے ڈرا کر دبایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو توہین پارلیمنٹ کا کیا بنے گا ہم بھی لوگوں کو جیل بھیج سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ اپنا فیصلہ سنا چکی اس کو واپس کیوں پارلیمنٹ میں لے کر جائیں۔ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے موقف سے اتفاق نہیں کرتا۔‘وزیر قانون نے جواب دیا کہ ’آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں تاہم آئین کے تحت معاملے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو قومی اسمبلی بھجوا دیا جائے، آج وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہے یہ معاملہ وہاں حل ہو جائے گا۔ اس سے اداروں کے ٹکراؤ والی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔‘وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم ضمنی سپلیمنٹری گرانٹ کی سمری آج کابینہ اجلاس کو بھجوا دیتے ہیں۔‘وزیر قانون نے کہا کہ ’آئین کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا ہے، حکومت کو سپریم کورٹ فیصلے کے خیال ہے، وزارت خزانہ ڈیمانڈ پیش کرے اور کابینہ سے منظوری لے۔‘وزیر قانون نے مزید کہا کہ ’نیک نیتی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھتے ہیں، آج ہی کی تاریخ ہے اور آج کابینہ اجلاس اور قومی اسمبلی اجلاس بھی ہے۔‘کمیٹی نے وزرات خزانہ کو ڈیمانڈ کابینہ کو بھیجنے کی سفارش کر دی۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اس کے بعد معاملہ قومی اسمبلی کو بھیجا جائے۔