ثمرین محمود: ’شروع میں والد ڈرتے تھے کہ ورکشاپ پر عورت سے فرنیچر خریدنے کون آئے گا؟‘

بی بی سی اردو  |  Apr 17, 2023

BBCکئی لوگوں نے ثمرین کی مدد سے اپنے گھروں کو ری ڈیزائن کیا

‎ثمرین محمود نے جب اپنے والد کی ورکشاپ پر فرنیچر بنا کر آن لائن بیچنے کا کام شروع کیا تو ان کے والد نے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ وہ سوچتے تھے کہ ایک خاتون سے ورکشاپ پر فرنیچر خریدنے کون آئے۔

مگر اپنی نئی سوچ اور تخلیقی مہارت سے فرنیچر ڈیزائنر ثمرین نے اپنے والد کا اعتماد اور ورکشاپ کی ذمہ داری جیتی۔ اب وہ لاہور میں چار سال سے آن لائن اپنا فرنیچر برانڈ چلا رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں انھیں یہ کام وراثت میں ملا اور ان کی سابقہ تین نسلیں اسی پیشے سے وابستہ تھیں۔

ثمرین کے مطابق وہ کرسی یا میز بنانے کے لیے ہر طرح کی مشین خود بھی چلا لیتی ہیں۔ ’اگر آپ نے خود پہلے کام کیا ہو اور آپ کو کام کا پتا ہو تو آپ کام اچھے طریقے سے کروا سکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب تک آپ کو خود کام نہیں آتا تو آپ کاریگروں سے اچھا کام نہیں لے سکتے۔ آپ کو کام آتا ہو تو آپ باریکی سمھجتے ہیں۔‘

تمرین کی تخلیقی ذہنیت کہتی ہے کہ ’لکڑی بکھری ہوئی ہی اچھی لگتی ہے،جیسے آپ باہر سے آئیں اور لکڑی بکھری ہوئی پڑی ہو تو یہی ورکشاپ کی خوبصورتی ہے۔‘

’ڈس آرڈر (بے ترتیبی) میں ہی آرڈر (ترتیب) ہے، یہ تخلیق کی اصل خوبصورتی ہے۔‘

انھوں نے پاکستان میں انٹیریئر ڈئزائنگ پر ایک کتاب لکھی ہے اور آن لائن کلاسز بھی لیتی ہیں۔

BBCثمرین کرسی یا میز بنانے کے لیے خود تمام مشینیں چلا لیتی ہیںاکثر خواتین گاہک ’بڑی مشکل سے شوہروں کو مناتی ہیں‘

ان کا کہنا ہے کہ فیملی بزنس ہونے کی وجہ سے انھیں یہ سننا پڑا کہ ’آپ کو تو کافی سہولتیں ملیں، خاندان کا تجربہ اور تعلقات سپورٹ کرتے ہوں گے‘ لیکن ثمرین کے مطابق ’جب آپ پڑھ لکھ کر اپنے آباؤ اجداد کی جگہ آؤ اور اپنے والد کو چیلنج کرو تو تصادم آتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ جدید معلومات اور ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے اپنے طریقے سے کام کرتی ہیں۔ ’جو میں نے سیکھا، جو مجھ پسند ہے جو مجھے شوق ہے، اس کو آگے لے کر جا رہی ہوں۔ اُس سے تصادم نہیں آتا۔ اُس سے ہماری انفرادیت کی حفاظت ہوتی ہے۔‘

ثمرین کا کہنا ہے اُن کا زیادہ رابطہ خواتین سے رہتا ہے۔ ’اس طرح معاشرے کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ خواتین کے اپنے کیا چیلنج ہیں۔ ایک گاہک اور ایک بیچنے والے کے طور پر خواتین کی کیا حدیں ہیں، پیسہ کس کے ہاتھ میں ہے، فیصلہ کون کر سکتا ہے۔ یہ سب مجھے تب پتا چلا جب میں نے خواتین کے ساتھ بات کی۔‘

’خواتین بتاتی ہیں کہ یہ میری کمیٹی کے پیسے ہیں۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے خاوند کو منایا ہے۔‘

ان کے مطابق ’عورت خود فیصلہ کر نہیں سکتی۔ اس کے فیصلے پر مرد حاوی رہتے ہیں، اس لیے ان عورتوں کو گاہک بنانا بذات خود بڑا چیلینج ہے۔‘

BBC’لکڑی لینے آئی ہو باجی، شوقیہ آئی ہو؟‘

ثمرین کے خیال میں بطور خاتون فرنیچر کا کاروبار کرنا اصل چیلنج ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مارکیٹ میں مرد اور عورت کے لیے الگ الگ رویے ہیں۔‘

انھوں نے گلہ کیا کہ ’جب بطور عورت آپ کاروبار شروع کریں اور جب آپ مارکیٹ میں چیزیں خریدنے جائیں تو آپ کو اُس طرح سے ڈیل نہیں کیا جاتا جیسے ایک مرد کو ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرد کاروبار کر رہا ہے، تو وہ کاروبار چلتا رہے گا لیکن ایک عورت سے یہ توقع نہیں رکھی جاتی۔ عورت کے بارے میں سوچا جاتا ہے یہ شوقیہ، وقتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ کے ساتھ کوئی آدمی کھڑا ہو یا کوئی دوسری عورت آپ کو کام کرتا دیکھے تو وہ کہتے ہیں ’تم لڑکی ہو، اتنے مزدوروں میں کھڑی ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

رابعہ ناز: خیرپور کی لڑکی یوٹیوب کی آمدن سے دو کمروں کا اپنا گھر بنوانے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

خواتین کو کیوں کام کی جگہوں پر عمر کی بنا پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟

’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیا

BBCثمرین کو یہ ورکشاپ اور پیشہ وراثت میں ملا

وہ کہتی ہیں کہ ’مردوں کے ساتھ لوگ کاروبار میں زیادہ لمبا رشتہ بناتے ہیں۔ ایسا دیکھ کر احساس ہوتا ہے جیسے آپ اکیلے ہو، ویسے بھی گتنی کی عورتیں ہوں گی جو ورکشاپ چلاتی ہوں۔‘

جب وہ پہلی بار مارکیٹ میں لکڑی کی خریداری کرنے گئیں تو دکانداروں کا رویہ اچھا نہیں ہوتا تھا۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ان کا تضیک آمیز انداز تھا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کل کی لڑکی اس کو کیا پتا، وہ کہتے کہ ’لکڑی لینے آئی ہو باجی، شوقیہ آئی ہو؟‘ ان کے لیے مذاق ہوتا ہے، حقارت سے دیکھتے ہیں، لہجے میں فرق ہوتا ہے۔‘

ثمرین نے اپنے بارے میں یہ تک سنا کہ ’میڈم آئی ہیں، ان سے مختلف ریٹ لو۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ جب ایک بار انھوں نے کم وزن کی شکایت کی تو ایک دکاندار نے جواب دیا ’آپ کا قد چھوٹا ہے، اس لیے آپ کو نظر نہیں آ رہا۔‘ جب انھوں نے نیچے بینچ رکھ کر یہی بات دہرائی تو دکاندار نے ’وزن تو بڑھا دیا مگر مذاق اڑانے کے بعد۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ رویہ مرد عورت کی وجہ سے نہیں، دھوکہ دینے کا مزاج بن گیا ہے، اخلاقی قدریں نہیں ہیں۔‘

BBCاکثر خواتین انھیں بتاتی ہیں کہ مالی فیصلے ان کے شوہروں کے ہی ہوتے ہیںفرنیچر کا آن لائن کاروبار

ثمرین کی اکثر گاہک خواتین ہیں، اسی لیے ان کا کوئی شوروم نہیں بلکہ ورکشاپ کے ساتھ وہ آن لائن کاروبار چلاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شروع میں والد ڈرتے تھے کہ ورکشاپ کون آئے گا، یہاں سے کیا آرڈر ملے گا لیکن میں نے اپنی مضبوط بنیاد بنائی۔ میری اپنی ویب سائٹ ہے جس کی وجہ سے خواتین میری ورکشاپ پر آتی ہیں۔ شروع میں مجھے خود جانا پڑتا تھا، اب فیملیز یہاں آتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’چیلینجز بہت ہیں مگر اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتی ہوں کہ میں لڑکیوں کو فرنیچر کا کاروبار کرنا سکھا سکتی ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More