BBC
جب حالات بے قابو ہو جائیں اور بظاہر کوئی بھی انھیں سدھارنے کے قابل نہ رہے تو خود کو تسلی دینے اور نااہلی چھپانے کے لیے یا تو ’شان دار ماضی‘ کی داستانیں کام آتی ہیں یا پھر اردگرد کی ہم سے بھی گئی گذری مثالیں۔
مثلاًسردار موچی سے لے کے محلے کی مسجد میں جمعتہ الوداع کا خطبہ دینے والے مولوی صاحب تک سب کے سب صاحب الرائے اکابرین اپنی دنیاوی و دینوی عظمت ثابت کرنے کے لیے موجودہ عالمِ اسلامکے ہر ہر قابلِ ذکر فرد کو کوستے ہوئے شاندار ماضی کے تالاب میں کود کے روپہلی سنہری مچھلیاں پکڑ کے معتقدین کے حوصلے بڑھاتے رہتے ہیں۔
ان اکابرین کو زندہ لوگوں میں کوئی ہارون رشید، البیرونی، ابنِ سینا اور صلاح الدین ایوبی نظر نہیں آتا۔
ویسے بھی کنوئیں میں مقید آدمی کو آخر کتنا آسمان ٹپائی دے سکتا ہے؟
ہماری قسمتوں کے فیصلہ ساز مملکتی ڈرائیوروں کی خوش امیدی و رجائیت عام آدمی سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔
جب 1990 کے عشرے میں کراچی میںاوسطاً 50 لاشیں روزانہ مل رہی تھیں تو ابتری پر قابو پانے والے ذمہ دار یہ کہہ کے حوصلہ بڑھاتے تھے کہ مانا کراچی میں حالات اچھے نہیں مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ کولمبیا کے دارلحکومت بوگوٹا میں روزانہ کراچی سے دوگنی لاشیں گرتی ہیں اور سٹریٹ کرائمز کی وبا پر شور مچانے والے ذرا نیویارک اور جوہانسبرگ کی پولیس سے پوچھیں کہ وہاں سٹریٹ کرائمز کا کیا بھاؤ چل رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں کراچی اب بھی جنت ہے میاں جنت۔
Getty Images
یا 30 برس پہلے تک اسپر سینہ پھلایا جاتا تھا کہ بھائی ہم معاشی طور پر کمتر سہی پر انڈیا سے تو اچھے ہیں جہاں کے سب سے بڑے شہر ممبئی میں لاکھوں لوگ فٹ پاتھ پر رہتے ہیں۔ اب کسی محبِ وطن کے منہ سے یہ مثال سنے عرصہ ہو گیا۔
اس کہانی پر بھی ایک مدت تک سینہ چوڑا رہا کہ معلوم ہے جنوبی کوریا نے پچھلے 60 سال میں کیوں ترقی کی؟ اپنے ڈّاکٹر محبوب الحق مرحوم تھے نا ضیا الحق کے وزیرِ خزانہ۔ اس سے پہلے وہ عالمی بینک میں ٹاپ کے افسر تھے۔ انھوں نے ہی انیس سو ساٹھ باسٹھ میں جنوبی کوریا کو معاشی ترقی کا پلان بنا کے دیا تھا۔ ورنہ تو آج تلک یہ ملک چپل اور سائیکل ہی بنا رہا ہوتا۔
اور یہ جو امارات ائیرلائن والے ایک ایک وقت میں سو سو جہاز خرید رہے ہیں۔ بھائی یقین مانو 40 سال پہلے ایسی حالت تھی کہ دوبئی کے شیخ کی درخواست پر اپنی پی آئی اے نے دو جہاز ادھاری پر دیے تھے جن کی دم پر الامارات لکھا گیا۔ آج دیکھو کہاں سے کہاں پہنچ گئے یہ بدو اور ہمیں پہچانتے تک نہیں۔
اگر کسی وفاقی خزانچی سے پوچھا جائے کہ آخر کیا وجہ ہے ملکی و غیرملکی قرضہ بڑھتے بڑھتے کل قومی پیداوار کے لگ بھگ 80 فیصد کے برابر ہو گیا ہے؟ اب تو قسط بھرنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑ رہا ہے؟
پٹاخ سے جواب ملتا ہے کہ بھائی یہی سوال آپ جاپان سے کیوں نہیں پوچھتے جس کا قرضہ اس کی قومی پیداوار کا ڈھائی گناہے ( 235 فیصد )۔
جاپان سے پوچھنے کی ہمت نہیں تو سوڈان سے ہی پوچھ لو جس پر قرضے کا بوجھ اس کی کل قومی پیداوار سے بھی دوگنا ( 210 فیصد ) ہے۔ ہمارا تو ابھی صرف 80 فیصد تک پہنچا ہے۔ کیوں دل چھوٹا کرتے ہو۔ دال دلیہ چل ہی رہا ہے۔
وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے
اگلا کون ہے بھئیا؟
جانِ من کہاں جا رہی ہو مجھے ڈسے بغیر؟
’بائیس کروڑ میں سے صرف بائیس پاکستانی چاہیں‘
اور یہ جو تم میڈیا والے آسمان سر پہ اٹھا رہے ہو کہ افراطِ زر 45 فیصد سے بھی اوپر چلا گیا ہے اور عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور ڈالر نے روپے کا بلادکار کردیا ہے، تمہیں کچھ پتہ بھی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
بھائی صاحب وینزویلا میں افراطِ زر کی شرح 1200 فیصد، سوڈان میں 350 فیصد، لبنان میں 201 فیصد اور ارجنٹینا میں 104 فیصد ہے۔ تو کیا ان ملکوں میں لوگ زندہ نہیں یا یہ ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئے۔
تم لوگوں کا اللہ کی رحمتپر آخر بھروسہ کیوں نہیں ہے جو قوم میں مایوسی پھیلا رہے ہو۔ وہ تو پتھر میں مقید کیڑے کو بھی رزق پہنچاتا ہے۔
Getty Images
ہاں ٹھیک ہے انسانی ترقی کے عالمی اشاریے میں ہمارا درجہ 192 ممالک کی فہرست میں 161 نمبر پر اور سارک ممالک میں سب سے نیچے ہے۔ لیکن برخوردار شکر کرو کہ ہم سے زیادہ بری حالت میں 33 اور ممالک بھی ہیں۔
معلوم ہے آج پاکستانی پاسپورٹ 198 ممالک کی فہرست میں 194 نمبر پر ہے۔ مگر ہم پھر بھی یمن، صومالیہ، عراق اور شام سے اس معاملے میں بہتر ہیں۔ 40 سال پہلے ہمارا پاسپورٹ ٹاپ 20 میں تھا۔ ایک دن یہ پاسپورٹ اوپر والے کے حکم سے ٹاپ 10 میں نظر آئے گا۔
اب تو لگتا ہے کہ ہم بحیثیت ریاست اس فٹ پاتھی ماہر دست شناس کی طرح ہو گئے ہیں جو طوطا فال نکال کے ہر کسی کا نصیب بتا اور بنا سکتا ہے سوائے اپنی قسمت کے۔
حالات کی درستی کا سفر خود احتسابی سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن جب میں عقلِ کل ہوں اور کسی سے کچھ سیکھنے اور پھر اس سیکھ کو خود پر لاگو کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں اور بحرانی بیل کے سینگ سامنے سے پکڑنے کی نیت بھی نہ ہو تو ساری افلاطونی آزمائش کے ترازو میں برف کے باٹ رکھ کے باتوں کے خربوزے تولنے میں صرف ہو جاتی ہے۔
آخر ٹائم بھی تو پاس کرنا ہے۔