آرمی چیف کا قومی اسمبلی میں خطاب: ’ہمارے پاکستان‘ کے بیان کا مطلب کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 15, 2023

گذشتہ روز پاکستان کی پارلیمنٹ میں سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ’ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔‘

واضح رہے کہ پارلیمنٹ کا ان کیمرہ سیشن سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بلایا گیا تھا جس میں سکیورٹی حکام نے وزرا سمیت اراکین اسمبلی کو بریفنگ دی۔

اس موقع پر آرمی چیف سے منسوب بیان سامنے آیا جس کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں۔ پاک فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔‘

واضح رہے کہ آرمی چیف کا یہ بیان آئی ایس پی آر کی جانب سے سامنے نہیں آیا جس کی وجہ اجلاس کا ان کیمرہ انعقاد بتایا جاتا ہے۔

تاہم پاکستان میں موجودہ غیر یقینی سیاسی صورتحال اور حکومت اور سپریم کورٹ کے مابین پنجاب میں الیکشن کی تاریخ اور عدالتی اصلاحات کو لے کر چل رہی کشمکش کے دوران، آرمی چیف کے اس بیان کو خاصی اہمیت سے دیکھا جا رہا ہے جس میں ہر طبقہ اور سیاسی جماعت اپنی مرضی کے معنی تلاش کرتی نظر آئیں۔

بیشتر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اگرچہ آرمی چیف نے واضح الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن اس پیغام سے کچھ لوگوں کو یہی تاثر مل رہا ہے کہ حکومت اور عدالتی کے مابین چل رہی محاذ آرائی میں آرمی چیف نے ایک پوزیشن لی ہے۔

ہم نے چند سیاسی تجزیہ نگاروں سے بات کرکے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ آرمی چیف کے اس بیان میں آیا کوئی پیغام تھا اور موجودہ حالات کے تناظر میں اس بیان کی اہمیت کیا ہے۔ تاہم اس سے قبل ایک نظر ڈالتے ہیں تحریک انصاف کے ردعمل پر۔

’کیا ہمارا پاکستان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عمران خان سے محبت کرتے ہیں؟‘

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بار ہا اس بات کا اظپار کر چکے ہیں کہ فوج کی قیادت سے ان کا کوئی رابطہ نہیں۔ ایسے میں جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے فوکل پرسن حسان نیازی نے آرمی چیف کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’کیا ہمارا پاکستان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عمران خان سے محبت کرتے ہیں؟‘ تو یہ جملہ تحریک انصاف کا براہ راست فوج کی قیادت سے سوال لگا۔

انھوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ’کیا ہمارے پاکستان میں ہمارے پاکستانیوں کی عزت محفوظ ہے؟کیا تنقید کی گنجائش ہوگی؟‘

تاہم پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے آرمی چیف کے بیان کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف کے آئین اورعوام کے نمائندوں کی مقتدر حیثیت کے بارے میں خیالات درست اور خوش آئند ہیں، انھوں نے پہلی تقریر میں بھی بڑے معاملات پر گفتگو اوراتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو مقتدراعلیٰ مان کر آئین کے تحت الیکشن کی حمایت کی جائے اور عوامی فیصلوں کا احترام کیا جائے۔‘

لیکن دوسری جانب شیریں مزاری کہتی ہیں کہ ’بلاشبہ یہ ہمارا پاکستان ہے - اسی لیے ہم اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب کے مختلف ورژن ہیں۔ پی ڈی ایم پرانا پاکستان چاہتی ہے جہاں کرپشن اور اقربا پروری کا راج تھا۔ اسٹیبلشمنٹ روایتی پاکستان چاہتی ہے جہاں انھوں نے عوام و جمہوریت کے دھوکے میں رکھتے حکومت کی۔ جبکہ پی ٹی آئی آئین، قانون کی حکمرانی اور حقیقی آزادی والا اور سماجی بہبود کے نظام کے تحت پروان چڑھنےوالا نیا پاکستان چاہتی ہے۔‘

’وہ پی ٹی آئی کے نسبت حکومت کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں‘@GovtofPakistan

تحریک انصاف کا موقف اپنی جگہ لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کا پیغام بہت واضح ہے کہ ’وہ حکومت اور پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اور ظاہر ہے اگر حکومت اور عدالت کے تنازعہ اور باقی سب صورتحال کو مدِنظر رکھا جائے تو ’وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں یا پی ٹی آئی کے نسبت حکومت اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کے ساتھ زیادہ کھڑے نظر آتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اصولی طور پر تو فوج حکومتِ وقت کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور فوج کا حکومت کے ساتھ نہ ہونا منفرد بات ہوتی ہے۔

وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی میں ’مسلم لیگ ن کی پچھلی حکومت میں فوج ان کے ساتھ نہیں تھی اور اُس وقت فوج پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی تھی لیکن اِس وقت حکومت اور فوج ویسے ہی اکھٹے ہیں جیسے پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں تھے۔‘

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’فوج کہتی تو ہے کہ وہ نیوٹرل ہے لیکن ظاہر ہے اس وقت وہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں حکومت کے زیادہ قریب ہیں اور حکومت و پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہیں اور(حکومت کے) یہ فیصلے عمران خان اور سپریم کورٹ کے خلاف ہیں۔‘

یاد رہے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ سال فروری میں عسکری قیادت نے بڑے غور و خوض کے بعد اجتماعی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ ادارہ آئندہ سیاسی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم (فوج) اس پر سختی سے کاربند ہیں اور رہیں گے۔‘

تجزیہ کار ضیغم خان بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ صورتحال میں جوڈیشری پی ٹی آئی کے ساتھ جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے۔ یہ تناظر نہ ہوتا تو یہ ایک عام بیان تھا لیکن موجودہ صورتحال میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آرمی چیف کے بیان کے دو حصے ہیں، پہلے (ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر ’ہمارے پاکستان‘ کی بات کرنی چاہیے) میں انھوں نے تنازعہ کے حل کی بات کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پرانے پاکستان کا مطلب ہے پرانی سیاسی پارٹیاں اور پی ٹی آئی اپنے آپ کو نیا پاکستان کہتی ہے اور یہی پاکستان میں سیاسی تنازعے کی وجہ بن گئی ہے جس نے ملکی اداروں کو بھی ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سامنے پانچ بڑے چیلنجز کیا ہوں گے؟

عمران خان اور فوج ’ایک پیج‘ کے بیانیے کے باوجود آمنے سامنے کیسے آئے؟

ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’آرمی چیف اس حصے میں کامن گراؤنڈ اور مل کرمستقبل کے لیے اکٹھے ہونے کی بات کی ہے اور اس میں انھوں نے کسی کی حمایت نہیں کی۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’دوسرے حصے (عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں۔ پاکستان کی فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی) کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں اور عدلیہ کے ساتھ نہیں۔‘

ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’آرمی چیف کو یہ بیان دینے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟اسی سی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک کا سٹرکچر کتنا غیر مستحکم ہو گیا ہے۔‘

فوج کے نیوٹرل ہونے کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ’شاید اسٹیبلشمنٹ حکومت کو زیادہ پسند نہ کرتی ہو اور وہ پی ڈی ایم کا اتنا ساتھ نہ دیں جتنا انھوں نے عمران خان کا دیا مگر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات بہت بدتر ہو گئے ہیں اور اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اس وقت ملک کے اداروں کی آپس میں لڑائی ہے جس میں فوج نیوٹرل نہیں رہ سکتی۔‘

’یہ بیان کسی کی حمایت یا مخالفت میں نہیں ہے‘Getty Images

صحافی و تجزیہ نگار نصرت جاوید اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ آرمی چیف نے کسی کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ ’آرمی چیف نے صرف اتنا کہا ہے کہ فوج اب دوسروں کی لڑائیاں نہیں لڑے گی، انھوں نےایک بار پھر سے اپنا یہ دعویٰ دہرایا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج غیرجانبدار ہے اور یہ بیان کسی کی حمایت یا مخالفت میں نہیں ہے۔‘

بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آرمی چیف نے بہت عمدہ اور مثبت بات کی ہے جس کا موجودہ سیاسی صورتحال میں کون فائدہ اٹھائے گا یا اٹھا سکتا ہے وہ ایک الگ بحث ہے۔‘

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ جیسے آرمی چیف موجود حکومت کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں، میں ایسا نہیں سمجھتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے تو عوامی نمائندوں کی بات کی ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس وقت پارلیمنٹ میں بیٹھے منتخب نمائندوں میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان تو شامل نہیں ہیں تو نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کو شاید احتیاطاً یہ بھی کہہ دینا چاہیے تھا۔۔۔ اور عمران خان جیسے مقبول ترین رہنما۔‘

’آرمی چیف کی گفتگو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ کسی آرمی چیف نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بیان نہیں دیا تاہم آرمی چیف کی گفتگو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

’اگر وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کا منتخب ہاؤس جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اس پر عملدرآمد کریں گے، اس سے یہی لگتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر اس وقت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی لڑائی ہے تو آرمی چیف نے کہہ دیا ہے کہ ہم عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاؤس کے ساتھ ہیں اور اس میں چھوٹی سی اپوزیشن بھی شامل ہے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اور ملک کا آئین فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا لیکن قانونی حدود کے برعکس فوج کی تاریخ مارشل لا، بالواسطہ مداخلت اور پس پردہ سیاسی انجینیئرنگ کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔

فوج کی نیوٹریلٹی کے حوالے سے حامد میر کا کہنا ہے کہ ’یہ کہنا کہ فوج نیوٹرل ہے، ایک ڈرامہ ہو گا، فوج تو کبھی نیوٹرل نہیں ہوتی، عمران خان کے دور میں بھی نیوٹرل نہیں تھی، ابھی بھی نیوٹرل نہیں ہے اور آج کل فوج پی ڈی ایم کے ساتھ ہے۔ ‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More