تنخواہ نہ ملنے پر اساتذہ کا چندہ مانگ کر احتجاج: ’ہم بلوچستان حکومت کے پاؤں پکڑنے پر مجبور ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Apr 12, 2023

BBC

’تنخواہیں نہ ملنے کے باعث ہم ایک اذیت سے دوچار تو ہیں ہی لیکن سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس کی سزا ہمارے بچوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے کیونکہ فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے ان کو سکولوں اورکالجوں میں دوسرے بچوں کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان یونیورسٹی کی ٹیچر ڈاکٹر عابدہ بلوچ کا جنھیں یونیورسٹی کے دیگر اساتذہ اور ملازمین کی طرح تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔

تنخواہیں نہ ملنے کے خلاف یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین گزشتہ 10 روز سے احتجاج پر ہیں جس کے نتیجے میں یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔

اس دوران اساتذہ اور ملازمین نے ایک انوکھا احتجاج کرتے ہوئے علامتی طورپر چندہ جمع کیا اور سبزیوں کی ریڑھیاں بھی لگائیں۔

یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹرکلیم اللہ بڑیچ نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ تین سال کے دوران ہر دو تین ماہ بعد اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہوں کے لیے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمانکہتے ہیں کہ یونیورسٹی مالی بحران سے دوچار ہے، جس کے باعث اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مالی بحران کے باعث ہم بلوچستان حکومت کے پاؤں پکڑنے پر مجبور ہیں اور ان کو کہہ رہے کہ ہمیں پیسے دو اور اس بحران سے نکالو۔‘

یونیورسٹی کے مالی بحران سے متعلق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی جانب سے مؤقف نہیں آیا۔ ادھر حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت کی یہ بھرپور کوشش ہو گی کہ یونیورسٹی کی مالی مشکلات میں کمی لائی جائے۔

’فیس کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث ہمارے بچوں کو کلاسوں میں کھڑا کیا جاتا ہے‘

ڈاکٹر عابدہ بلوچکہتی ہیں کہ ’موجودہ کمر توڑ مہنگائی میں ایک ماہ تنخواہ نہ ملے تو گھر میں آفت آتی ہے لیکن ہماری تنخواہیں گزشتہ تین ماہ سے بند ہیں۔‘

’اسی طرح پینشنر کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے ایک سابق ملازم کو دل کا دورہ پڑا جس سےان کی موت واقع ہوئی۔ اس مہنگائی میں تنخواہیں نہ ملنے سے یہ خدشہ ہے کہ ہمارے ملازمین کہیں نفسیاتی مسائل سے دوچار نہ ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تنخواہ سے ایک ملازم اور ان کے خانداننے گھر کا کرایہ دینا ہوتا ہے، بجلی اور گیس کے بل دینے ہوتے ہیں، بیماری کی صورت میں علاج معالجے کے اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بچوں کے تعلیمی اخراجات ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’فیسوں کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث ہمارے بچوں کو کلاسوں میں کھڑا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کو دوسرے کلاس فیلوز کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

یونیورسٹی کے اکیڈمک سٹاف ایسوی ایشن کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلا موقع نہیں کہ ہم احتجاج کر رہے ہیں بلکہ گزشتہ تین سال سے ہر دو تین ماہ بعد اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہوں کے لیے احتجاج کرنا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر کلیم اللہ نے کہا کہ ’رمضان میں اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہماری تنخواہیں نہیں دی جا رہیں جبکہ عید بھی آنے والی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبائی یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ صرف ڈھائی ارب روپے کی گرانٹ رکھی گئی ہے جو ’اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کے لیے جو فنڈزمختص کیے گئے ہیں وہ انتہائی کم ہیں۔‘

’پاکستان کی پبلک سیکٹر کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے مرکزی حکومت نے دس ہزار ارب روپے کے سالانہ بجٹ سے صرف 102ارب روپے مختص کیے ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘

یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی اور انوکھا احتجاج

تنخواہیں نہ ملنے کے خلاف یونیورسٹی کے اساتذہ اورملازمین نا صرف ہر روز احتجاج کر رہے ہیں بلکہ یونیورسٹی میں تالابندی کی وجہ سے 10 روز سے زائد عرصہ سے تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں۔

احتجاج کے دوران اساتذہ اور ملازمین چھوٹے ڈبے ہاتھوں میں پکڑے پریونیورسٹی کے لیے چندہ اکھٹے کرتے رہے اور چند نے اپنے اخراجات کے لیے علامتی طور پر سبزیوں کی ریڑھیاں بھی لگائیں۔

چندوں کے ڈبوں کے ساتھ اساتذہ اور ملازمین نے مارچ کر کے بلوچستان اسمبلی کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ڈاکٹر کلیم اللہ نے بتایا کہ ’ہم اسمبلی تک اس امید کے ساتھ گئے کہ وہاں حکومت ہماری بات سنے گی لیکن اجلاس کے باوجود کوئی حکومتی رکن ہم سے ملنے بھی نہیں آیا۔ وزیر تعلیم نے بھی آنے کی زحمت نہیں کی۔‘

یونیورسٹی میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے فورتھ سمسٹر کی طالبہ اُلُسمینہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یونیورسٹی میں گزشتہ کئی روز سے کلاسز نہیں ہو رہیں جس سے سٹوڈنٹس کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھاکہ ’جب سے میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے اس وقت سے دیکھ رہی ہوں کہ ہر دوماہ بعد یونیورسٹی ملازمین کو تنخواہوں کے لیے احتجاج کرنا پڑتا ہے اور انھیں تنخواہ احتجاج کے بعد ہی ملتی ہے۔‘

اُلُسمینہ نے وفاقی اوربلوچستان حکومت سے اپیل کی کہ وہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں تاکہ طلبا کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ایک بہتر تعلیمی ماحول کے لیے اساتذہ اور ملازمین کو کسی پریشانی سے دوچار نہیں ہونا چاہیے۔

Getty Images

یہ بھی پڑھیے

بچوں کی پرورش کے لیے پانچ بہترین ملک جہاں تعلیم اور ماحول سمیت کئی چیزیں مثالی ہیں

سوات میں 15 سال بعد لڑکیوں کے ہائی سکول اور کالج میں تعلیم کا آغاز: ’یقین نہیں تھا ہم کالج پڑھنے آئیں گے‘

’مالی بحران کے باعث تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں‘

تنخواہیں نہ ملنے کے حوالے سے جب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی اس وقت مالی بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں ہو پا رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک تو وفاقی حکومت سے گرانٹ میں کمی کی گئی جبکہ بلوچستان حکومت کی جانب سے سالانہ صرف پچاس کروڑ روپے کی گرانٹ ملتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی تعداد 1600کے لگ بھگ ہے جن کی تنخواہیں اور سابق ملازمین کی پینشن کی مد میں ماہانہ 23 کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے چار کیمپس ہیں جن میں طلبا کی مجموعی تعداد 16 ہزار 800 ہے۔

’چونکہ یہ پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے اور اس میں پڑھنے والے طلبا اور طالبات غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ہم ان سے معمولی فیس وصول کرتے ہیں جو کہ فی سمسٹر صرف 9 ہزار روپے ہے۔‘

’دونوں حکومتوں سے ہمیں سالانہ جو گرانٹَ ملتی ہے وہ ڈیڑھ ارب روپے بنتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمِیں تنخواہ اورپینشن کی مد میں دو ارب 76 کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جبکہ باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔‘

’یہ حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کتنی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور ماضی کے مقابلے میں ان اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔‘

’حکومت ہر ماہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اپنی اخراجات کو پورا کر رہی ہے لیکن ہم ہر ماہ فیسوں میں اضافہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں کی طلبا زیادہ فیس نہیں دے سکتے۔ پچھلے سال جب سیلاب آیا تو ہمیں متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کی فیسوں کو معاف بھی کرنا پڑا۔‘

وائس چانسلر نے بتایا کہ بہت سارے ایسے عوامل کے باعث یونیورسٹی کی آمدن اور اخراجات میں بڑا فرق ہے جس کی وجہ سے بحران سنگین ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہمیں سالانہ جو ایک ارب کی گرانٹ دیتی ہے ان میں سے ابھی تک 35 کروڑ روپے نہیں ملے۔‘

ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ ’رواں سال ہمیں بلوچستان حکومت سے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کے علاوہ 30 کروڑ روپے کا ایک بیل آؤٹ پیکیج ملا لیکن ہماری مشکلات میں کمی نہیں آ رہی اور اگر ہمیں بحران سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا تو یونیورسٹی رواں مالی سال کے دوران ملازمین کو پانچ ماہ کی تنخواہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔‘

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا کہ گزشتہ تین سال میں 170 ملازمین ریٹائر بھی ہوئے ’جن کی کمیوٹیشن کی مد میں کروڑوں روپے کی ادائیگی کی گئی، جس نے ہمارے اخراجات میں مزید اضافہ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مالی بحران سنگین ہونے کے باعث ہم بلوچستان حکومت کے پاؤں پکڑنے پر مجبور ہیں کہ ہمیں پیسے دو اور اس بحران سے نکالو۔‘

بلوچستان حکومت کا مؤقف

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے کہا کہ ’بلوچستان حکومت کے وسائل محدود ہیں لیکن اس کے باوجودکوشش ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں کی ہرممکن مدد کرے۔‘

’این ایف سی ایوارڈ کے تحت حصہ نہ ملنے کے باعث کچھ عرصہ بیشتر بلوچستان حکومت مالی مشکلات سے دوچار ہو گئی تو وزرا کے ایک وفد نے اسلام آباد کا خصوصی دورہ کیا جس کے باعث وفاق سے کچھ فنڈز ملے۔‘

فرح عظیم شاہ نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ یونیورسٹیوں کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے لیکن ایسا لگ رہا ہے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی کی جانب سے اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے کوئی سٹرکچر نہیں بنایا گیا تاہم بلوچستان حکومت کی یہ بھرپور کوشش ہوگی کہ یونیورسٹی کی مالی مشکلات میں کمی لائی جائے۔‘

وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان بابر یوسف نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے احتجاج کیا تو حکومت نے یونیورسٹی کو30 کروڑ روپے جاری کیے۔

ان کا کہنا تھاکہ اب بھی انھوں نے اساتذہ اورملازمین سے ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی کہ وہ احتجاج ختم کریں تاکہ طلبا کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More