لکھنؤ سپر جائنٹس کی جیت اور ’ادب سے ہرانے‘ کی بازگشت: ’لکھنؤ سے ہیں میاں پہلے ادب سیکھتے ہیں، پھر چلنا‘

بی بی سی اردو  |  Apr 08, 2023

کرکٹ کو یوں تو شروع سے ہی ’جنٹل مینز گیم‘ یعنی شرفا کا کھیل کہا گیا ہے لیکن مقابلے اور مسابقت نے اس میں جارحیت کو فروغ دیا۔ ماضی میں اس کھیل میں نسلی امتیاز کے ناسور کے خلاف بھی مزاحمت کی جاتی رہی جس نے اس کی روح کو زک پہنچائی۔

تاہم گذشتہ روز انڈیا کے ’تہذیبی دارالحکومت‘ لکھنؤ کے سٹیڈیم میں انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل کے میچ کے دوران ایک ایسا نعرہ لکھا نظر آيا جس نے نہ صرف کرکٹ کی پرانی معنویت کو بحال کر دیا بلکہ لکھنؤ کے تہذیب ورثے کا ثبوت دیتے ہوئے لوگوں سے خراج تحسین بھی وصول کیا۔

آئی پی ایل کی قدرے نئی ٹیم لکھنؤ سپر جائنٹس کا جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب سن رائزرز حیدرآباد سے مقابلہ تھا اور ان دونوں شہروں کو اپنے مختلف آداب اور اپنے منفرد لذیذ کھانوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔

سٹیڈیم کے باہر لکھنؤ سپر جائنٹس کی جانب سے ان کی ٹیگ لائن بینر کے انداز میں لکھی تھی جس پر رقم تھا ’ادب سے ہرائيں گے۔‘

انھوں نے حیدرآباد کو انتہائی آسانی کے ساتھ بغیر کسی اتار چڑھاؤ کے شکست سے دو چار کیا اور یوں وہ آئی پی ایل کی لیڈر ٹیبل میں گجرات کو پیچھے چھوڑ کے سرفہرست ٹھہرے۔

حیدرآباد کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کا انتخاب کیا لیکن لکھنؤ کی ’باادب‘ بولنگ کے سامنے وہ مقررہ 20 اوورز میں صرف 121 رنز بنا سکی۔ یہ ہدف لکھنؤ کی ٹیم نے 16 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔

Getty Images

مذاقاً ہی سہی لیکن یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ لکھنؤ والے اتنے تہذیب یافتہ ہوتے ہیں کہ اگر جھگڑا ہو جائے اور سامنے والا ناقابل برداشت ہو جائے تو بھی وہ اپنے سامنے والے کو برا بھلا کہنے سے گریز کرتے ہیں اور اگر بات حد سے بڑھ جائے اور دشنامی کی نوبت آ جائے تو گالی بھی انتہائی نفیس انداز میں دیتے ہیں۔

بہرحال گذشتہ رات ’پہلے آپ پہلے آپ‘ والی تہذیب کے علمبردار نے عمدہ کرکٹ کھیلی اور 'فیئر پلے' کے معاملے میں بھی وہ فی الحال سر فہرست ہیں۔

میچ کے دوران اگرچہ کمنٹیٹرز نے ’ادب سے ہرائیں گے‘ کا ذکر بھی کیا اور ان کی آسان جیت کو اسی زمرے میں شمار کیا لیکن سوشل میڈیا پر بھی اس بارے میں بات ہو رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر بازگشت

معروف کرکٹ کمنٹیٹر اور کئی کتابوں کے مصنف ہرشا بھوگلے نے اس ٹیگ لائن کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور لکھا: ’میں نے کرکٹ میں بڑی بڑی باتیں سنی ہیں۔ کبھی کبھی جنگ سے جڑے ہوئے لفظوں کا استعمال ہوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن پہلی بار سنا ہے کہ ہم ’ادب سے ہرائیں گے۔‘ کیا بات ہے لکھنؤ۔‘

https://twitter.com/bhogleharsha/status/1644321714988544000

ان کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’جنگ بھی کریں گے تب بھی ادب سے لڑیں گے۔ لکھنؤ سے ہیں میاں، پہلے ادب سیکھتے ہیں، پھر چلنا۔‘

https://twitter.com/contentwaala/status/1644396194377134080

حیدرآباد کے ڈاکٹر اے ڈبلیو حیدرآبادی نے لکھا کہ 'ادب کا جواب تہذیب سے دیا جائے گا۔ آخر ہم بھی ہیں حیدرآباد کے نواب!'

خیال رہے کہ آئی پی میں دونوں ٹیمیں ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گی اور شاید وہ میچ حیدرآباد میں کھیلا جائے گا۔

اکبر قدوئی نامی صارف نے لکھا کہ لکھنؤ کی ٹیم کا اس سے بہر نعروہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم کون ہیں یہ اس کی بہترین نمائندگی ہے۔'

لکھنؤ جائنٹس کی جانب سے ایک ٹوئٹ کیا گیا جس میں لکھا تھا 'لکھنؤ کے مشہور ہیں ٹنڈے کباب، ادب سے ہرا دیا نہ جناب'

https://twitter.com/LucknowIPL/status/1644389076177395712

ریدھیما پاٹھک نے ہوم ڈلیوری کمپنی زومیٹو کے ایک اشتہار کو شیئر کیا ہے جس میں جلی حروف میں لکھا ہے لکھنؤ بمقابلہ حیدرآباد مقابلہ برابر اور پھر چھوٹے فونٹ میں لکھا ہم بریانی کے مقابلے کی بات کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

لکھنؤ صرف انڈیا ہی میں نہیں ہے!

واجد علی شاہ: اودھ سلطنت کے آخری بادشاہ عیش و نشاط کے رسیا یا آرٹ کو فروغ دینے والے ہردلعزیز بادشاہ

’وہ کرکٹر نہیں لیکن پورے سٹیڈیم کی نظریں انھی پر تھیں‘

بہر حال اس تصویر کے ساتھ ریدھیما نے لکھا 'ادب سے ہرا دیا لکھنؤ نے۔ لکھنؤ ٹیم کی جانب سے گھریلو میدان پر کچھ غلبہ۔ نو بولنگ آپشنز کے ساتھ کے ایل راہل کی ٹیم جھنڈ میں شکار کرتی ہے۔ تین میچ میں دو میں فتح سے اب یہ لیڈر بورڈ میں سرفہرست آ گئی ہے۔'

https://twitter.com/PathakRidhima/status/1644388812548603922

اکثر صارفین اور لکھنؤ کے مداحوں نے لکھا کہ ’وہ چنئی سپرکنگز اور رائل چیلنجر بنگلور کو بھی ادب سے ہرائیں گے۔ تو کئی نے لکھا ہے کہ گھر پر ہی ادب رہے گا یا باہر بھی ادب سے جیتیں گے؟‘

بہرحال لکھنؤ اپنی تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے اور اسی طرح حیدرآباد بھی جبکہ آئی پی ایل کھیل کے ساتھ انٹرٹینمنٹ کا بھی مجموعہ ہے تو ایسے میں یہ چیزیں مداحوں کے مزے کو دوبالا کرنے کے لیے کافی تھیں۔

ویسے آپ نے لکھنؤ کی تہذیب کے بارے میں بہت سے لطیفے سنے ہوں گے اور یہ انڈیا کے واٹس ایپ گروپس میں کافی مقبول ہیں اور کافی شيئر کیے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ ’ادب سے ہرائیں گے‘ ان میں ایک اضافہ ہو گا۔

لکھنؤ کی تہذیب

لکھنؤ کی تہذیب و تمدن کے حوالے سے رقیہ جعفری اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’لکھنؤ میں ایرانی نژاد نوابین اودھ نے راج کیا۔ گیارہ نوابوں نے اسے ایسی ترقی دی کہ ساری دنیا میں شہرہ ہو گیا۔

’مشرقی تمدن کا آخری نمونہ اپنے دھندلے نقوش کے ساتھ آج بھی جلوہ گر ہے۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں: ’اس کی وضعداری اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی، یعنی ہمدردی ، ایمانداری، حیا، سخاوت، قناعت، قوت برداشت، خود داری، محنت، وقت کی قدر و قیمت و پابندی، سچائی، لکھنؤ کے عوام و خواص میں شرافتِ لباس زندگی کے ہر شعبے میں سرائیت کر گئی تھی اور یہ سب کچھ اپنے عروج پر پہنچ کر واجد علی شاہ کے زمانے تک قائم رہا۔

لیکن اس کے بعد سے جو زوال شروع ہوا تو اس کے بارے میں معروف ادیب عبدالحلیم شرر نے اپنی معروف تصنیف ’گذشتہ لکھنؤ‘ لکھ ڈالی جس میں بقول ریختہ لکھنؤ کی تہذیب و تمدن کی تاریخ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

’اس کتاب میں داستان گوئی، ناول نویسی اور تاریخ تینوں کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر لکھنؤ کے مختلف نقوش فلمی تصاویر کی طرح قاری کی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔

لکھنؤ کا جغرافیہ اور مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور لکھنؤ کے نوابین کے کارنامے، فیاضیاں اور رنگ رلیوں کا تذکرہ بھی ہے۔

یہ کتاب شرر کے ناول فردوسِ بریں کے بعد سب سے زیادہ مقبول کتاب ہے۔ اس کی مقبولیت کے باعث، اس کا انڈیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More