NASA
امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے 50 سال کے عرصے میں پہلی بار چاند کے مشن کا حصہ بننے والے چار خلابازوں کے نام جاری کیے ہیں۔
کرسٹینا کُک چاند کے سفر پر جانے والی پہلی خاتون خلاباز ہوں گی جبکہ وکٹر گلوور ایسا کرنے والے پہلے سیاہ فام خلاباز ہوں گے۔
ان کے ہمراہ رِیڈ وائزمین اور جیرمی ہینسن ہوں گے اور منصوبے کے تحت 2025 کے اوائل میں یہ چار خلاباز چاند کے گرد کیپسول (خلائی گاڑی) اڑائیں گے۔
اگرچہ چاند پر اترنا اس مشن میں شامل نہیں مگر اس مشن کا مقصد آئندہ دوروں میں چاند پر اترنے والے خلابازوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔
NASAوہ چار خلا باز جو 2025 کے اوائل میں چاند کے سفر پر جائیں گے
ناسا نے یہ نام امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں ایک عوامی تقریب کے دوران بتائے۔ اس مشن میں تین امریکی جبکہ ایک کینیڈین شہری حصہ لے رہے ہیں۔
اب ان خلابازوں کی سخت تربیت کا مرحلہ شروع ہوگا جس میں انھیں اس مشن کے لیے تیار کیا جائے گا۔
ناسا کا کہنا ہے کہ خاتون اور غیر سفید فام شخص کے انتخاب کا مقصد خلائی تحقیق کو متنوع بنانا ہے۔ چاند پر جانے والے گذشتہ منصوبوں میں صرف سفید فام عملے کا انتخاب کیا گیا تھا۔
رِیڈ وائزمین (عمر 47 سال): امریکی بحریہ کے پائلٹ جو ایک عرصے تک ناسا میں خلابازوں کے دفتر کے سربراہ رہے۔ اس سے قبل وہ ایک بار 2015 میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن تک کا خلائی دورہ کر چکے ہیں۔
وکٹر گلوور (عمر 46 سال): امریکی بحریہ کے ٹیسٹ پائلٹ۔ انھوں نے 2013 میں ناسا میں شمولیت اختیار کی اور 2020 میں خلا کی پہلی اُڑان بھری۔ وہ چھ ماہ تک کے لمبے عرصے تک سپیس سٹیشن پر رہنے والے پہلے افریقی نژاد امریکی تھے۔
کرسٹینا کُک (عمر 44 سال): ایک الیکٹریکل انجینیئر۔ انھوں نے لگاتار 328 دن خلا میں گزارے اور یہ کسی خاتون کے لیے خلا میں سب سے طویل وقت گزارنے کا ریکارڈ ہے۔ اکتوبر 2019 میں پہلی بار صرف خواتین کا ایک مشن خلا کی سیر کو گیا جس میں کرسٹینا کا ساتھ ناسا کی خلاباز جیسیکا میئر نے دیا تھا۔
جیرمی ہینسن (عمر 47 سال): کینیڈا کی خلائی ایجنسی میں شمولیت سے قبل وہ رائل کینیڈین ایئر فورس میں فائٹر پائلٹ تھے۔ یہ خلا میں ان کی پہلی اُڑان ہوگی۔
ناسا کے رکن بِل نیلسن نے اس تقریب کے موقع پر بتایا کہ ’آرٹیمس ٹو کا عملہ ان ہزاروں لوگوں پر مشتمل عملے کی نمائندگی کرتا ہے جو سخت محنت کے ساتھ ہمیں ستاروں کے پاس لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ان کا عملہ ہے، یہ ہمارا عملہ ہے، یہ پوری انسانیت کا عملہ ہے۔‘
’ناسا کے خلاباز ریڈ وائزمین، وکٹر گلوور، کرسٹینا کُک اور سی ایس اے (کینیڈین) کے خلاباز جیرمی ہینسن ان سب کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔ مگر ایک ساتھ وہ ہمارے عقیدے کی نمائندگی کرتے ہیں: کئی افراد میں سے ایک۔ یہ ایک ساتھ خلابازوں اور خواب دیکھنے والوں کی نسل کی طرف سے خلائی تحقیق کے نئے دور کا آغاز ہوگا جسے دی آرٹیمس جنریشن کہا جائے گا۔‘
مشن میں وائزمین کمانڈر ہوں گے، گلوور ان کے پائلٹ جبکہ کُک اور ہینسن بطور ’مشن سپیشلسٹ‘ خدمات انجام دیں گے۔
یہ چار خلاباز 1968 کے اپولو ایٹ مشن کو دہرائیں گے جو کہ چاند پر پہنچنے والا پہلا کامیاب منصوبہ تھا۔
انھوں نے چاند سے زمین کی وہ مخصوص تصویر لی تھی جس میں زمین کو تاریکی سے روشنی کی جانب ابھرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
مگر اس بار فرق یہ ہوگا کہ ناسا 21ویں صدی کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرے گا جو کہ آرٹیمس پروگرام کے تحت بنائی گئی ہے۔ یونانی داستانوں کے تحت آرٹیمس اپولو کی جڑواں بہن تھی۔
گذشتہ سال ناسا نے چاند پر جانے والے نئے راکٹ کی آزمائش کی تھی جسے سپیس لانچ سسٹم کہا گیا۔ اس سے جڑے کیپسول (جس میں عملہ سوار ہوگا) کو اورائن کہتے ہیں۔
آرٹیمس ون کے مشن نے زمین سے نکل کر 25 روز تک چاند کے گرد دورہ کیا تھا مگر اس مشن میں کوئی عملہ نہ تھا۔ اس کے ذریعے انجینیئرز نے ان جدید آلات کی کارکردگی کا جائزہ لیا تھا۔
اب اورائن پر سوار نئے خلاباز آرٹیمس ٹو کے مشن کا آغاز کریں گے۔ چاند تک جانے اور آنے میں انھیں قریب 10 دن لگیں گے۔
دسمبر 1972 میں انسانوں نے آخری بار اپولو 17 کے ذریعے چاند کا سفر کیا تھا۔ خلاباز پہلی بار 1969 میں چاند پر اترے تھے۔
نئے دور میں چاند پر اترنے کا پہلا مشن، آرٹیمس تھری، آرٹیمس ٹو کے بعد کم از کم 12 ماہ تک ممکن نہیں ہو سکے گا۔
ناسا کے پاس فی الحال ایسا نظام موجود نہیں جو کہ خلابازوں کو چاند کی سطح پر اُتار سکے۔ اسے ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس تیار کر رہی ہے۔
اس کا نام سٹارشپ ہے اور آئندہ ہفتوں میں اس کی آزمائشی اُڑان ہوگی۔
ناسا کے جانسن سپیس فلائٹ سینٹر کی سربراہ ونیسا ویش کا کہنا ہے کہ اس مشن میں ’پہلی خاتون، پہلا غیر سیاہ فام شخص، پہلا کینیڈین چاند کے مشن پر روانہ ہوگا۔ چاروں خلاباز اس فائدہ مند تحقیق سے انسانیت کے بہترین جذبے کی نمائندگی کریں گے۔‘
’اس سے خلائی تحقیق کو وسعت ملے گی اور سائنس کی دریافتوں، کمرشل، صنعتی اور ادبی شراکت داری اور آرٹیمس جنریشن کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔‘