پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سوشل میڈیا کے لیے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنے مبینہ اغوا سے متعلق جمع کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ ان سے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم اور زمان پارک کے حوالے سے کئی کئی گھنٹے تک سوالات کیے گئے۔
واضح رہے کہ 30 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اظہر مشوانی کو بازیاب کر کے تین اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے یہ حکم اظہر مشوانی کے بھائی مظہر الحسن کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر دیا تھا۔
یاد رہے کہ اظہر مشوانی کی 23 مارچ کو لاپتہ ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں تھی اور تقریباً آٹھ دن غائب رہنے کے بعد 31 مارچ کو وہ واپس گھر پہنچ گئے تھے۔
پی ٹی آئی نے اظہر مشوانی کی اہلیہ ماہ نور اظہر کی جانب سے چیف جسٹس کے نام لکھا گیا ایک خط بھی شیئر کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے شوہر کے مبینہ اغوا کا نوٹس لینے کی درخواست کی تھی۔
اس سے پہلے اظہر مشوانی کی اہلیہ ماہ نور اظہر نے بی بی سی سے اپنی ٹوئیٹس شیئر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ اظہر کو دن کے دو بج کر اکاون منٹ پر لاہور سے زمان پارک جاتے ہوئے اٹھایا گیا تھا۔ انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ان کی فون کی لوکیشن پر آخری مرتبہ واٹس ایپ دو بج کر اکاون منٹ آرہا تھا۔
اظہر مشوانی نے عدالت میں جمع کرائے گئے بیان میں کیا کہا ہے؟
لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے بیان کے مطابق اظہر مشوانی 23 مارچ کی دوپہر وہ آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے زمان پارک جا رہے تھے جب ٹاؤن شپ کے علاقے میں اکبر چوک کے قریب ان کی گاڑی کو چند گاڑیوں نے روکا اور ان میں سے ’پنجاب پولیس کی وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد نے‘ انھیں حراست میں لے لیا۔
بیان کے مطابق اس دوران اظہر مشوانی نے اپنا موبائل گاڑی کی سیٹ کے نیچے پھینک دیا تھا۔
بیان کے مطابق وہ افراد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور سر پر کالا کپڑا ڈال کر انھیں لے گئے اور کچھ دیر بعد ایک اور گاڑی میں منقتل کیا۔ اظہر مشوانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انھیں گاڑی میں منتقل کرنے کے فوراً بعد نامعلوم افراد نے موبائل فون ڈھونڈنا شروع کر دیا اور نہ ملنے پر دوبارہ ٹیکسی سے جا کر لایا گیا۔
بیان کے مطابق ’مجھ سے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم اور زمان پارک کے حوالے سے کئی گھنٹے تک سوالات کیے گئے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اظہر مشوانی کے اہلخانہ کی جانب سے ان کی موبائل لوکیشن شیئر کیے جانے کے بعد انھیں ایک اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریباً پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد انھیں راولپنڈی اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ اظہر مشوانی نے عدالت میں جمع کروائے گئے بیان میں کہا ہے کہ انھیں ’روزے کی حالت میں 6-8 گھنٹے تک ایک لکڑی کی کرسی پر زنجیروں والی ہتھکڑی سے باندھ کر سوالات کیے گئے‘ اور ان کے ’کمرے اور ملحقہ واش روم میں متعدد کیمرے لگائے گئے‘ تھے۔
بیان کے مطابق دوران حراست اظہر مشوانی کا تین بار پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا اور منگل کی شام انھیں ایک نئے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جہاں انھیں سیل میں رکھا گیا۔
’پولی گراف ٹیسٹ میں مجھ سے بار بار چند مخصوص ٹوئٹر ہینڈلز اور اکاؤنٹ چلانے کے بارے میں پوچھا گیا۔‘
یاد رہے کہ اظہر مشوانی نہ صرف عمران خان کے ترجمان ہیں بلکہ پارٹی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ پی ٹی آئی کی یوتھ وِنگ کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور حال ہی میں وزیرِ اعلی پنجاب کے میڈیا کوآرڈینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
اظہر مشوانی کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ دوران تفشیش ان سے پوچھا گیا کہ ’تحریک انصاف سوشل میڈیا ٹیم پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں، لوگ مفت میں کیسے کام کر لیتے ہیں، عمران خان کو کون کون سے لوگ ملنے آتے ہیں؟‘
اظہر میشوانی نے بیان میں کہا کہ سوال کیا جاتا تھا کہ ’زمان پارک کے باہر موجود لوگوں کو کھانا کون دیتا ہے، یوٹیوبرز کو کتنے پیسے دیے جاتے ہیں۔ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے لوگوں کو ملاقاتوں میں عمران خان کی جانب سے کیا ٹاسک دیے جاتے ہیں؟ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو ڈائریکشنز کہاں سے ملتی ہیں، سوشل میڈیا ٹرینڈز کیسے ہوتے ہیں، کتنے فالورز اصلی ہیں۔‘
اظہر مشوانی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں جاری فاشزم پر میری ٹویٹس پر کافی غصے بھرے سوالات کیے گئے۔ مسلسل میرے خلاف ثبوت گھڑنے کی کوششیں کی گئی۔‘
ان کے مطابق ’پولی گراف ٹیسٹ نے ان کے تمام دعوے جھوٹے ثابت کیے تو کسی ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہر کو بلوا کر میرے موبائل کا سارا ڈیٹا چیک کروایا گیا اور سوالات کیے گئے۔‘
اظہر مشوانی نے عدالت کو بیان دیا ہے کہ ’میری ذاتی زندگی سے متعلق بچپن سے شادی تک سب کچھ بارہا پوچھا گیا، مجھ سے تحریک انصاف کی تمام سوشل میڈیا ٹیم کے حوالے سےسوالات کیے گئے۔‘
ان کے مطابق ’جمرات اور جمعے کی درمیانی شب مجھے دوبارہ پہلے والی بلڈنگ میں شفٹ کیا گیا اور پھر وہاں سے سحری کے بعد نکالا گیا اور مختلف سڑکوں پر گھمانے کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔‘
ان کے مطابق ’میرا موبائل واپس کر دیا گیا ہے تاہم دیگر سامان اور بٹوہ واپس نہیں کیا گیا ہے۔‘
بیان میں ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے رہائی کے بعد پتا چلا کہ ان کے متعدد ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اٹھانے والوں کا کہنا تھا کہ انھیں ’ڈی جی ایف آئی اے اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے احکامات پر اٹھایا گیا اور جب تک وہ نہیں چاہیں گے مجھے مغوی رکھا جائے گا۔‘
انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں نے ان افراد کو متعدد بار اپنے آپ کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا جس پر مجھے پورے ملک میں مقدمات بھگتنے کی دھمکی دی گئی۔‘
پی ٹی آئی سے شکوہ
جب مشوانی لاپتہ ہوئے تھے تو ان کی اہلیہ نے ایک ٹویٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی قیادت سے مجھے مذمتی بیانات نہیں چاہییں۔ بلکہ میں چاہتی ہوں کہ وہ اب کچھ کریں۔ مہربانی کر کے باہر آئیں اور اظہر مشوانی کے لیے کچھ کریں۔‘
جب یہی سوال پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری سے کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے اب تک کیا کیا گیا ہے؟ تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ہم نے ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں کی گئی۔ آج لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرانے کی کوشش کی، وہ بھی نہیں ہوئی۔ ‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ کچھ نہیں کررہے ہیں۔ اب گھر والے چاہتے ہیں کہ بندہ گھر پہنچ جائے، تو ہم کوششوں میں مصروف ہیں۔‘
انھوں نے بتایا تھا کہ ’اظہر مشوانی کی فون کی لوکیشن پہلے لاہور تھی پھر راولپنڈی اور اب فون بند ہوچکا ہے۔‘