’تو آئی پی ایل اور پی ایس ایل میں فرق کیا ہوا؟‘ سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Mar 12, 2023

Getty Images

ڈیڑھ صدی تک کرکٹ کو اپنی شہرت اور مقبولیت جمائے رکھنے کے لیے کسی سرمایہ دارانہ بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑی۔ حالانکہ نوے کی دہائی کے بیچ ہی آئی سی سی دولتمندی کے اسرار پا چکی تھی مگر تب تک کرکٹ فقط اپنے حسن، مسابقت اور سنسنی کے بل پر ہی پنپ رہی تھی۔

لیکن پھر اچانک عالمی کرکٹ کو اپنے مالی بقا کی فکر لاحق ہو نے لگی۔ جب کیری پیکر نے سرمائے کے بل پر تگڑے تگڑے کرکٹ بورڈز کو پچھاڑ ڈالا اور رنگ برنگی وردیوں میں فلڈ لائٹ کرکٹ نے ٹی وی سکرینوں پر میلے کا سماں باندھ دیا تو یہ طے ٹھہرا کہ کرکٹ اب صرف میدان کا کھیل نہیں رہا۔

یہ کرکٹ براڈکاسٹنگ میں ایک نئے عہد کا آغاز تھا جہاں آرگنائزرز کو منافع بخشی کے لیے محض ٹکٹوں کی فروخت کا سہارا ہی میسر نہ تھا بلکہ کرکٹ صحیح معنوں میں ٹی وی پر بِکنے کو تیار ہو چکی تھی۔

ساتھ ہی کرکٹ بورڈز بھی سبق سیکھ چکے تھے کہ اب کرکٹرز ارزاں نرخوں پر ملک وقوم کی خدمات کو دستیاب نہ ہوں گے اور معاوضوں میں بہتری لانے کی اہمیت کا احساس ابھرتے ہی اپنے کھاتے بھرنا بھی ضروری ہو رہا۔

یہاں سے بھاری بھر کم براڈکاسٹنگ معاہدوں کی ایک نئی رِیت چلی جو ٹی ٹونٹی کرکٹ کی آمد کے ساتھ ہی انگشت بدنداں رقوم میں بدلنے لگی۔

آئی پی ایل جب 2008 میں شروع ہوئی تو اس کے پہلے دس سالہ براڈکاسٹ رائٹس ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئے۔ اب نمو کا تخمینہ یہاں سے کیجیے کہ آئی پی ایل کی حالیہ چار سالہ براڈکاسٹ ڈیل چھ ارب بیس کروڑ ڈالر تک جا پہنچی ہے۔

ٹی ٹونٹی کرکٹ میں ہر وہ خوبی ہے کہ اسے پرائم ٹائم ٹی وی سپورٹ کے طور پر بیچا جا سکے۔ لیگ کرکٹ میں ہر میچ کو ایک بے وجہ سے فیسٹیول کا رنگ دینے کی کوشش بھی اسی جستجو میں کی جاتی ہے کہ ذرا رونق جمی رہے، اعصاب تنے رہیں اور توجہ بنی رہے۔

Getty Images

ٹی ٹونٹی کرکٹ نے آئی سی سی کے یہاں بھی ڈالروں کی ریل پیل کر دی اور پھر اسی رو میں بہتے سبھی کرکٹ بورڈز بھی اپنا اپنا بخرہ سمیٹ رہے ہیں مگر اس سارے کاسمیٹک انقلاب میں ایک بنیادی نکتہ اکثر کرکٹ بورڈز کی بصیرت سے محو رہ جاتا ہے کہ کرکٹ کی دلکشی بہرحال مسابقت سے ہے۔

جب مقابلہ جوڑ کا نہیں ہو گا اور حقیقی عزائم تمام تر بصری شعبدے بازیوں کی نفی میں ہوں گے تو کھیل میں دلچسپی فقط شرط باندھنے تک ہی محدود ہو رہے گی۔

یہ بھی پڑھیے

پی ایس ایل بمقابلہ آئی پی ایل لیکن کیا واقعی مقابلہ ہو سکتا ہے؟

انڈین کرکٹ بورڈ پر ذات پات کی بنا پر جانبداری کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟

ٹی ٹوئنٹی اب چہروں کی کرکٹ نہیں: سمیع چوہدری کا کالم

پی ایس ایل کی پہچان یہ ہوا کرتی تھی کہ یہ فاسٹ بولنگ کے پیرائے میں دنیا بھر کی بہترین کرکٹ لیگ تھی۔ اس امر کا اعتراف کئی غیرملکی کرکٹرز اور مبصرین کر چکے ہیں۔ یہ وہ پہلو تھا کہ آئی پی ایل جس سے یکسر محروم تھی۔

پی ایس ایل کو اپنا حسن بیچنے کے لیے کسی شاہ رخ خان کے ہوائی بوسوں یا پریتی زنٹا کی اچھل کود کا سہارا درکار نہیں تھا۔ یہ بہترین اور سخت جان کرکٹ کی لیگ ہوا کرتی تھی۔ یہاں وکٹوں کی چال کچھ ایسی ہوا کرتی تھی کہ کھیل میں سنسنی برپا کرنے کے لیے چھکوں چوکوں پر تھرتھرانے کی ضرورت ہی نہ پڑا کرتی تھی۔

Getty Images

مگر جوں جوں یہ برانڈ اپنی جڑیں پکڑ رہا ہے اور سرمائے کی جھلک اسے مخمور کیے جا رہی ہے، توں توں اصل کرکٹ اس سرمایہ داری کے وزن تلے دبتی جا رہی ہے۔ سپانسرز کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ چوکوں اور چھکوں کے ریٹنگ میٹرز بھی سٹاک ایکسچینج کے انڈیکس کی مانند متحرک رکھنا ضروری ہو پڑا ہے۔

خطیر مجموعے اگر بیسیوں میں ایک بار لگ جائیں تو بات اچنبھے کی بھی رہتی ہے اور کچھ سنسنی بھی لیکن اگر ہر روز صبح دم ہی پچ رنز اگلنے لگے تو کرکٹ بھی سرمائے کی ہوس میں دبی دبی سی دکھائی دیتی ہے۔

حالیہ پی ایس ایل کی گھٹن رہی ہے کہ سپانسرز کا بوجھ ڈھونے میں یہ ایسی پچز پر کھیلی گئی جو ہمہ قسمی بولرز کے لیے وحشت کا سامان ہوئیں۔ یہاں لیگ سپنر بھلا کیا بیچے اور فاسٹ بولر کہاں سر پٹخائے جب پچ میں ہی ایسا ’سیمنٹ‘ ٹچ دیا گیا ہو کہ گیند سے پہلے اس کا عکس بلے باز کے اعصاب کو معطر کر رہا ہو۔

راولپنڈی کی حالیہ پچز نے ٹیپ بال کرکٹ کو بھی شرما دیا اور یہ رنز کے پہاڑ لیگ کے حسن کو تو چار چاند لگا سکتے ہیں مگر یہ کرکٹ کے کھیل اور بولنگ کے فن کی توہین کے مترادف ہیں۔

پی ایس ایل ایک توانا برانڈ ہے اور پاکستان جیسی سسکتی معیشت میں اس کا فروغ خوش آئند ہی نہیں، امید کی ایک کرن بھی ہے۔

یہ وہ برانڈ بن سکتا ہے جو پاکستان کے لیے بیرونی سرمایہ کاری لانے کا وسیلہ بن سکتا ہے لیکن یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ یہ برانڈ کوالٹی کرکٹ اور فاسٹ بولنگ کے حسن پر ہی استوار کیا گیا تھا۔

اگر دولتمندی کی تمناؤں میں یہی دو اجناس جھونک دی گئیں تو پھر پی ایس ایل اور آئی پی ایل میں فرق کیا رہ جائے گا؟

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More