Getty Images
انڈیا کی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے ’گربھسنسکار‘ یعنی ’حمل کلچر‘ نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت زچہ بچہ کے طبی ماہرین حاملہ خواتین کو یہ سکھائیں گے کہ وہ کیا طریقہ اختیار کریں جس سے حمل کے دوران ہی بچہ ہندو تعلیمات اور ثقافت سے واقف ہو جائے۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے اسے احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آر ایس ایس غیر سائنسی تصورات کو ہوا دے رہی ہے۔
آر ایس ایس کی خواتین کی شاخ راشٹریہ سیویکا سمیتی نے اتوار کو دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا تھا۔
اس ورکشاپ کو دلی کے طبی ادارے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(ایمز) کے اشتراک سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں ملک کی 12 ریاستوں کے تقریباً 80 گائناکالوجسٹ نے حصہ لیا تھا۔
راشٹریہ سیویکا سمیتی کی ناظم سکریٹری مادھوری مراٹھے نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’حمل سے ہی بچے میں ہندو اقدار کی شروعات کرنی ہے۔ بچے کو پیٹ میں ہی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کو باقی سبھی چیزوں پر فوقیت حاصل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حمل سے پہلے اور حمل کے دوران دعائیں مانگنے اور عبادت سے من چاہی اولادیں پیدا ہوتی ہیں۔ انھوں نے مراٹھا بادشاہ شیواجی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کی ماں جیجا بائی نے یہ دعا مانگی تھی کی کہ ان کے ہاں ایک ہندو رہنما پیدا ہو۔‘
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو حمل کے دوران اسی طرح کی دعا مانگنی چاہیے تاکہ بچے ہندو حکمرانوں کی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوں۔
https://twitter.com/ChandnaHimani/status/1632667800278802433
راشٹریہ سیویکا سمیتی ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے اندر ثقافتی اقدار پیدا کرنے کے لیے گائنا کولوجسٹ، ڈاکٹر اور یوگا ٹیچرز کی مدد سے حمل کے دوران خواتین کے لیے بھگود گیتا، راماین کے منتروں اور یوگا کی مشق کا پروگرام شروع کر رہی ہے۔
مادھوری مراٹھے نے کہا کہ یہ پروگرام حمل کے دنوں سے شروع ہو کر بچے کی دو سال کی عمر تک جاری رہے گا۔ ان کے مطابق ’بچہ ماں کے پیٹ میں 500 الفاظ تک یاد کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بچے ہندو ثقافت اور اقدار کو سیکھ سکیں۔ ان کے مطابق اس پروگرام کے تحت ابتدائی طور پر حمل کے دوران کم از کم 1000 بچوں تک رسائی حاصل کی جائے گی۔
اس ورکشاپ میں شریک ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے ایمز کی ڈاکٹر رما جیا سندر نے کہا کہ ایسے والدین جو اقتصادی طور پر بہتر حالت میں ہیں، کے ہاں ایسے بچوں کی پیدائش بڑھتی جا رہی ہے جو جسمانی یا ذہنی نقص کا شکار ہیں۔
’اس لیے ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ حمل میں کیا بات بگڑ گئی۔ گربھ سنسکار حمل سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی جوڑا بچے کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے آیوردید (دیسی نسخہ) کا کردار شروع ہو جاتا ہے۔‘
ان ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ گربھ سنسکار یعنی حمل کلچر پر اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو ماں کے پیٹ میں بچے کا ڈی این اے تک تبدیل ہو سکتا ہے۔
ایک مقرر ڈاکٹر شویتا ڈانگرے نے ہم جنس پرستی کے بارے میں بھی عجیب و غریب دلیل دی۔ انھوں نے کہا ’اگر ایک ماں کا پہلے سے ہی ایک لڑکا ہے اور وہ یہ توقع کرتی ہیں کہ دوسری اولاد لڑکی ہو گی لیکن وہ بھی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو ایسا لڑکا ہم جنس پرست ہو سکتا ہے۔‘
https://twitter.com/rohinverma2410/status/1632605283137769472
سوشل میڈیا پر آر ایس ایس کے حمل کے بارے میں تصور اور اس کے مجوزہ پروگرام پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور بیشتر صارفین نے اسے غیر سائنسی نظریہ قرار دیا ہے۔
ایک صارف نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’حیرت انگیز، عجیب و غریب۔ میں حیران ہوں کہ یہ کس طرح معاشرے کو مذہب اور ثقافت کے نام پر پیچھے لے جا رہے ہیں۔‘
ای ڈی میتھیو نے سوال کیا کہ ’اب اس کے بعد کیا؟ سیکس کے وقت عبادت؟‘
روہنی موہن نے لکھا کہ ’اس ورکشاپ میں ہم جنس پرستی کے بارے میں جو بتایا گیا، اس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔‘
صارف جیکب نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ملک طالبان کی طرز پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ’مجھے نہیں معلوم کہ اب لوگ اس بات کو محسوس کر رہے ہیں یا نہیں کہ آر ایس ایس ایک ایک کر کے نظام کو بدل رہی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو انڈیا بھی بالکل طالبان کے افغانستان کی طرح نظر آئے گا۔‘
ڈاکٹر ورون سی ایم ڈی نے ٹویٹ کی کہ ’اگر رجسٹرڈ ڈاکٹر اس طرح کی جہالت کی حمایت کریں گے تو یہ ہمارے ملک کے سائنسی مزاج کے لیے ٹھیک نہیں۔‘