جسموں پر ٹیٹو، منڈے ہوئے سر اور برہنہ پا، ہزاروں گینگسٹرز ایل سیلواڈور کی سب سے بڑی جیل میں منتقل

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2023

Reuters

ایل سیلواڈور میں گینگز کے پہلے گروپ میں 2,000 افراد کو ایک بہت بڑی نئی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے، جسے جرائم کے خلاف صدر نایب بوکیل کی اعلان کردہ جنگ کا مرکز کہا جا رہا ہے۔

Reuters

قتل اور دیگر پرتشدد جرائم میں اضافے کے بعد ہنگامی حالت کے تحت ملک میں دسیوں ہزار مشتبہ گینگسٹرز کو پکڑا گیا ہے۔جیل میں 40,000 سے زیادہ افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

Reuters

تصاویر میں قیدیوں کے پہلے بڑے گروپ دیکھا جا سکتا ہے جن کے جسموں پر ٹیٹوز بنے ہیں اور وہ سب ننگے پاؤں ہیں انھیں نئی جیل کی جانب لے جایا گیا۔

Reuters

منڈے ہوئے سروں والے ان قیدیوں کے ہاتھ سروں کے پیچھے باندھ کر انھیں فرش پر بٹھایا گیا ہے ، انھیں ان کے قیدخانوں میں لے جانے سے پہلے ایک جگہ اکھٹا کر کے بٹھایا گیا۔

Reuters

صدر بوکیل نے ٹویٹ کیا کہ پہلے 2,000 افراد کو ’صبح کے وقت، ایک ہی آپریشن میں‘ سینٹر فار دی کنفائنمنٹ آف ٹیررازم منتقل کیا گیا، جو ان کے بقول امریکاز کی سب سے بڑی جیل ہے۔

ان کا کہنا تھا ’یہ ان کا نیا گھر ہو گا، جہاں وہ کئی دہائیوں تک رہیں گے، تمام مخلوط، آبادی کو مزید نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘

Reuters

میگا جیلٹیکولوکا میں، دارالحکومت سان سیلواڈور سے 74 کلومیٹر (46 میل) جنوب مشرق میں آٹھ عمارتوں پر مشتمل ہے۔

Reuters

یہ بھی پڑھیے

تدمر: دنیا کی سب سے خطرناک جیل؟

ایکواڈور کی وہ جیل جہاں سے زندہ لوٹنے والے خوش قسمت تصور ہوتے ہیں

حکومت کا کہنا ہے کہ ہر ایک کے پاس تقریباً 100 مربع میٹر (1,075 مربع فٹ) کے 32 سیل ہوتے ہیں تاکہ ’100 سے زیادہ‘ قیدیوں کو رکھا جا سکے۔

سیل میں صرف دو سنک اور دو بیت الخلا ہیں۔

Reuters

صدر بوکیل نے گذشتہ مارچ میں ’گینگز کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات کو منظور کیا تھا جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

ہنگامی اقدامات متنازع رہے ہیں کیونکہ وہ کچھ آئینی حقوق کو محدود کرتے ہیں، جیسے کہ سکیورٹی فورسز کو بغیر وارنٹ مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کی اجازت دینا۔

Reuters

انسداد جرائم کی مہم میں 64 ہزار سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بے گناہ لوگوں کو پالیسی میں پھنسایا گیا ہے، لیکن بوکیل کا گینگ مخالف دباؤ سیلواڈور کے لوگوں میں مقبول ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More