ثانیہ مرزا: انڈین ٹینس سٹار جنھوں نے ثابت کیا کہ نفرت کو بھی ہرایا جا سکتا ہے

بی بی سی اردو  |  Feb 23, 2023

Getty Images

اگرچہ اعداد و شمار کے لحاظ سے، ثانیہ مرزا کا مقابلہ سرینا ولیمز جیسی بڑی کھلاڑی سے نہیں کیا جا سکتا تاہم اس ٹینس سٹار کا انڈیا میں کھیلوں پر خاص طور پر خواتین پر ہونے والے اثرات کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔

ان کے کالے بال ایک جوڑے میں بندھے ہوئے تھے، ثانیہ کی سیاہ آنکھیں منگل کو پورے نیٹ پر مرکوز تھیں، کیونکہ انھوں نے سرو کرنے سے پہلے تین بار گیند کو اچھالا۔

وہ ڈبلیو ٹی اے دبئی ڈیوٹی فری چیمپئن شپ میں روس کی ویرونیکا کدرمیٹووا اور لیوڈمیلا سیمسونوا کے خلاف کھیل رہی تھی، سینکڑوں تماشائیوں نے، جن میں سے بہت سے انڈیا کے شائقین تھے، ان کی آخری کارکردگی دیکھنے کے لیے کورٹ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔

ثانیہ مرزا اور ان کی ساتھی میڈیسن کیز پہلے راؤنڈ کا میچ سٹریٹ سیٹس میں ہار گئیں، جس سے ان کے 20 سالہ پیشہ ورانہ ٹینس کیریئر کا خاتمہ ہو گیا۔

Getty Images

چھ گرینڈ سلام ڈبلز ٹائٹل کے ساتھ، ثانیہ مرزا انڈیا کی سب سے کامیاب ٹینس سٹار ہیں۔

کئی دہائیوں کے دوران انھوں نے کیریئر کے 43 بڑے ٹائٹل جیتے، ڈبیلو ٹی اے کی ڈبلزز رینکنگ میں نمبر ون بننے والی پہلی انڈین بن گئیں، یہ کارنامہ انھوں نے 2015 میں انجام دیا۔

مخالفین کی تنقید اور چوٹوں کے باوجود برسوں تک ثانیہ کی کھیل سے لگن بے مثال رہی ہے۔ انکی بہترینکارکردگی 2015 میں سامنے آئی جب انھوں نے اور مارٹینا ہنگس نے 16 ٹائٹل جیتے، جن میں تین گرینڈ سلام شامل ہیں اور انھیں خواتین کی ڈبلز کی اب تک کی سب سے کامیاب جوڑی قرار دیا گیا ہے۔

لیکن ثانیہ مرزا کی کہانی اس لیے خاص ہے کہ انھوں نے اسے ایک پیشہ ور کھلاڑی کے طور پر بنایا، باوجود اس کے کہ ان کی راہ میں مشکلات حائل رہیں۔ وہ سنہ 1986 میں پیدا ہوئی، وہ انڈیا کے جنوبی شہر حیدرآباد میں ایک ایسے وقت پروان چڑھی جب ٹینس کو صرف امیروں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔

انھوں نے چھ سال کی عمر میں گائے کے گوبر سے بنے برتنوں والے کورٹس پر کھیلنا شروع کیا، یہ مٹی اور ہارڈ کورٹ کے درمیان ایک سستی چیز ہے۔

Getty Images

ثانیہ مرزا ایک فطری کھلاڑی بن کر ابھریں اور جونیئر ٹینس کھلاڑی کے طور پر کامیابی حاصل کی، جب وہ 15 سال کی تھیں تو 2003 ومبلڈن چیمپئن شپ کا لڑکیوں کا ڈبلز ٹائٹل جیتا۔

لیکن وہ 2005 میں اس وقت سپاٹ لائٹ میں آگئیں جب انھوں نے آسٹریلین اوپن کے تیسرے راؤنڈ میں جگہ بنائی، سنگلز میں میجر کے اس مرحلے تک پہنچنے والی پہلی انڈین خاتون نے سُپر سٹار سرینا ولیمز کا سامنا کیا۔

یہ ایک غیر معمولی کارنامہ تھا، کرکٹ کے جنون میں مبتلا انڈینز نے ایک نوجوان کھلاڑی کو ایک ایسی نامور کھلاڑی کے مد مقابل دیکھا جو پہلے ہی سب سے بڑی کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر چکی تھیں۔ اگرچہ ثانیہ مرزا میچ ہار گئیں لیکن ان کے کریئر نے نہ صرف ٹینس بلکہ انڈیا میں خواتین کے کھیلوں کو ایک مجسم شکل دی۔

Getty Images

انٹرنیٹ سے پہلے کے دور میں ان کے میچوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا، ان کی کارکردگی دیکھنے کے لیے لوگ ٹی وی سکرینوں سے چپکے رہتے۔ وہ انڈین کھیلوں کے صفحات پر ایک باقاعدہ فیچر تھیں۔ بہت سے انڈینز کے پاس ایک ایسی کھلاڑی کی ابتدائی یادیں ہیں جو ایک ان جیسی نظر آتی تھی اور بولتی تھی، اور بہت اچھا کام کر رہی تھی۔

لیکن جب بہت سے لوگ ثانیہ مرزا کے عروج کا جشن منا رہے تھے تو مسلم علما کے ایک گروپ نے ایک فتویٰ جاری کیا، جس میں ان کے ٹینس کے کپڑوں کو ’غیر شرعی، غیر اسلامی اور فحش‘ قرار دیا۔

اس وقت وہ صرف 18 برس کی تھیں اور انھییں ٹینس کورٹ میں اپنے لباس کے انتخاب پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا۔

ثانیہ مرزا، بافخر مسلمان تھیں جو اپنے مذہب پر اپنی شرائط پر عمل کرتیں جو ان کے مقاصد اور امنگوں میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔

ان کی بے پناہ مقبولیت اکثر انھیں اپنے ہی ملک میں سخت تفتیش کا موضوع بنا دیتی تھی۔ لیکن ثانیہ مرزا کو اپنا لوہا منوا رہی تھیں اس لیے انھیں کبھی گھبراہٹ میں نہیں دیکھا گیا۔

Getty Images

سنہ 2008میں، انھوں نے اعلان کیا کہ وہ انڈیا میں کھیلنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی کیونکہ انھوں نے سب سے باوقار ٹینس ٹورنامنٹ، بنگلور اوپن کا بائیکاٹ کرنے کا انتخاب کیا۔

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’جب بھی میں انڈیا میں کھیلتی ہوں، ایک مسئلہ ہوتا ہے‘۔

چند دن پہلے ان پر قومی پرچم کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا تھا جب ایک میز پر انڈین پرچم کے سامنے اپنے ننگے پاؤں پھیلائے آرام کرتے ہوئے دیکھی گئی تھیں۔ اس مہینے کے شروع میں، انھوں نے اپنے آبائی شہر حیدرآباد کی ایک تاریخی مسجد میں ایک اشتہار فلمانے کے بعد مسلم گروہوں کو بھی اقتعال دلا دیا۔

سنہ 2010میں ثانیہ مرزا نے پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی کی، جس سے ان کی آبائیملک سے وفاداری کے بارے میں اکثر سوالات اٹھتے رہے۔

آخرکار ثانیہ ایک ایسا کام کرنے میں کامیاب ہو گئیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا تھا، تمام مخالفتیں جھیلنے کے بعد ایک انڈین کے بجائے جنوبی ایشیائی آئیکن بن گئیں۔

منگل کو، دبئی کے میدان اور آن لائن میں ان کے مداحوں نے ان کی تعریف کی جب انھوں نے میچ کے بعد اپنے بیٹے کو گلے لگایا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ثانیہ مرزا نے کس طرح معذرت خواہانہ انداز اختیار کیے بغیر اس تصور کو ختم کیا کہ انھیں کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کو کھیل میں پیشہ ورانہ کیریئر بنانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی ثانیہ مرزا بالکل ایسا کرنے میں کامیاب رہیں۔

Getty Images

جب راجدیپ سردیسائی، انڈیا کے نامور صحافی نے 2016 میں ایک انٹرویو کے دوران ان سے ’سیلٹڈ ‘ ہونے کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’ آپ مایوس لگ رہے ہیں کہ میں دنیا میں نمبر ون ہونے پر ماں بننے کا انتخاب کیوں نہیں کر رہی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا میں ایک عورت کے طور پر ہر وقت کرتی ہوں، جس کا سامنا تمام خواتین کو کرنا پڑتا ہے، سب سے پہلے شادی ہے اور پھر یہ زچگی ہے۔ بدقسمتی سے، جب ہم سیٹل ہو جاتے ہیں، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم کتنے ومبلڈن جیتتے ہیں۔‘

عوامکے سامنے گزرے وقتمیں ثانیہ مرزا خواتین کے حقوق کی حامی رہی ہیں، وہ عموماً گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور دیگر مسائل کے خلاف بولتی ہیں۔ وہ انڈین کھیلوں میں غیر منصفانہ معیارات کی بھی مسلسل ناقد رہی ہیں، جہاں خواتین کے لیے اچھی سہولیات اور مناسب تنخواہ کا حصول ابھی بھی مشکل ہے۔

کچھ لوگ ان کے ٹھنڈے، سخت بات کرنے والے رویے کو تکبر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے پرستاروں کے لیے، ان کی واضح بات رکنا ان کی خوبی ہے۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل انھوں نے ای این پی ایس کو بتایا کہ ’میں چاہوں گی کہ لوگ یاد رکھیں کہ یہ لڑکی صحیح چیزوں کے لیے لڑتی تھی۔ اسے خود پر یقین تھا جب کوئی اور نہیں کرتا تھا،وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ آپ مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘

ثانیہ مرزا کا ٹینس کیرئیر بھلے ہی ختم ہو گیا ہو لیکن ایک کھلاڑی کے طور پر ان کی میراث شاید ابھی ختم نہ ہو۔

دبئی اور حیدرآباد میں اپنی ٹینس اکیڈمیوں کے علاوہ، وہ رائل چیلنجرز بنگلور فرنچائز کی خواتین کرکٹرز کی رہنمائی کریں گی جو جلد ہی انڈین ویمنز پریمیئر لیگ میں کھیلنے والی ہیں۔

’سوچ یہ ہے کہ اگلی نسل کی مدد کی جائے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے جو مجھ سے ہر وقت پوچھا جاتا ہے اور جسے ہم گذشتہ 20 سالوں سے نہیں ڈھونڈ سکے؟ کہ ’آپ کے بعد کون آئے گا‘۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More