’میرے بھائی کو جبری اٹھایا گیا ہے لیکن پولیس نے اغوا کا مقدمہ درج کرنے کے بجائے گمشدگی کی رپورٹ درج کی ہے جبکہ میرے چھوٹے بھائی کو ویگو میں اٹھایا گیا ہے۔‘
یہ کہنا ہے ایڈووکیٹ سجاد حسین حیدری کا جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی ماجد حیدری کو کراچی کے علاقے سچل گوٹھ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
سجاد حیدری کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی دبئی میں گذشتہ 12 برسوں سے کام کر رہے تھے اور گذشتہ سال کمپنی نے ان کو پلاننگ انجنئیر کے طور پر ترقی دی لیکن اچانک اس میں تبدیلی آ گئی اور انھیں کہا گیا کہ ’ہم پر دباؤ ہے آپ کمپنی اور دبئی چھوڑ کر چلے جائیں۔‘
وہ بتاتے ہیں ’ماجد نے اپنی فیملی کو پاکستان بھیج دیا اور خود سعودی عرب چلے گئے جہاں انھوں نے عمرہ کیا اور مقامی ملازمت کی کوشش کی جس کے بعد دسمبر کے پہلے ہفتے میں وطن واپس آگئے اور یہاں سے انھوں نے ملازمت کی کوششیں کیں۔ انھیں سعودی عرب میں ایک ملازمت مل گئی لیکن وہ یورپ جانا چاہتے تھے اس کوشش میں انھیں نیدرلینڈز کی ایک کمپنی نے پیشکش کی جس کے لیے انھیں اسلام آباد سفارتخانے جانا تھا لیکن انھیں اٹھا لیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ 13 رجب کی شام تھی جب ماجد نے نیاز تقسیم کی اور گھر آکر لیٹ گئے تو ان کے تین برس کے بیٹے نے ضد کی کہ اس کو چیز دلائے۔ انھوں نے بیٹے سے کہا کہ وہ چائے پی لیں اس کے بعد اس کو ساتھ لے جائیں گے۔
لیکن بچہ بضد رہا اس کے بعد وہ بیٹے کو لے کر نیچے گئے اور اس کے آدھے گھنٹے کے بعد مقامی لوگوں نے گھر اطلاع دی کہ ’ایک سیاہ ویگو میں ان کے بھائی کو لے جایا گیا ہے‘۔ اس دوران خریداری کا خواہشمند چھوٹا بیٹا وہاں ایک مرغی والے کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
ماجد حیدری کے والد عابد حسین حیدری جئے سندھ محاذ سے وابستہ رہے ہیں۔ ماجد نے دبئی میں سندھی کمیونٹی کی ایک تنظیم بھی بنائی تھی جس کے ذریعے سے وہ سماجی اور کلچرل سرگرمیوں کا انتظام کرتے تھے۔
سندھ میں حالیہ سیلاب کے متاثرین کی انھوں نے مدد کی اور ان کے لیے چندہ اکھٹا کیا تھا۔ شکارپور میں وہ ایک خیراتی ایمبولینس سروس بھی چلا رہے تھے۔
’مغوی بھائی جی ایم سید کے عدم تشدد کے فلسفے کے پیروکار تھے‘
سجاد حیدری کے مطابق ان کے بھائی جئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید کے عدم تشدد کے فلسفے کے پیروکار تھے۔ ’وہ کسی پرتشدد گروپ یا تنظیم سے کبھی بھی وابستہ نہیں رہے۔‘
ایڈووکیٹ سجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سچل تھانے میں بھائی کی گمشدگی کی درخواست دی ہے۔ ایس ایچ او نے کہا کہ وہ یہ اطلاع وائرلیس کے ذریعے عام کریں گے اور اس کے بعد ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ تاہم اس وقت صرف ’کچی‘ رپورٹ ہی درج ہے۔ وہ مسلسل رابطے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پولیس کوئی مثبت جواب نہیں دے رہی ہے۔
سجاد حیدری کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست پر تھانے کی مہر موجود ہے۔ تاہم ایس ایچ او راجہ تنویر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس درخواست اور واقعے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس رپورٹ درج کرانے کے لیے حیدری خاندان کا کوئی فرد بھی نہیں آیا ہے۔
انجنئیر ماجد حیدری کی جبری گمشدگی کے خلاف امریکہ، کینیڈا میں موجود سندھی ایسوسی ایشنز نے مذمت کی ہے جبکہ ٹوئٹر پر ماجد کی بازیابی کے لیے ٹرینڈ بھی چلایا گیا ہے۔ لندن میں ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے ماجد حیدری سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ اتوار کو 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پر مظاہرہ بھی کیا گیا۔
ماجد حیدری کی خاندان کی جانب سے انسانی حقوق کمیشن کو بھی درخواست دی گئی ہے، جس میں کہا گیا کہ ان کی سرکاری سطح پر ابھی تک کہیں سے بھی شنوائی نہیں ہو سکی ہے۔
سندھ ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز نیٹ ورک کے رہنما علی پلھ کہتے ہیں کہ پاکستان کو جبری گمشدگیوں کے قانون پر دستخط کرنے چاہئیں کیونکہ ’ریاست کے اندر ریاست کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جبری گمشدگی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
علی پلھ مطابق ماحد حیدری ہی واحد لاپتہ ہونے والے فرد نہیں ہے بلکہ حالیہ عرصے میں اور بھی متعدد افراد کے اغوا کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان کے خیال میں جبری گمشدگی کی یہ لہر درحقیقت منتخب حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے اور حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے۔
BBC
یہ بھی پڑھیے
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: ’اللہ نے مجھے دو بیٹے دیے لیکن انسانوں نے دونوں کو چھین لیا‘
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ: ’والد کے بعد اب بچے کا نام کون رکھے گا‘
جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کا بِل بھی گمشدہ: ’غلطی ہوئی ہے تو ادارے حفیظ بلوچ سے معافی مانگیں‘
’جبری گمشدگیوں میں اضافے کا تاثر غلط ہے‘
سندھ میں وزارت انسانی حقوق کے مشیر سریندر ولاسائی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ میں جبری گمشدگیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کے پاس اگر اس نوعیت کی درخواست آتی ہے تو اس کو صوبائی سیکریٹری داخلہ کو بھیجا جاتا ہے۔ تاہم ماجد حیدری کے خاندان کی طرف سے کوئی درخواست نہیں آئی ہے۔
ساجد حیدری نے بتایا کہ وہ پولیس تھانے سے رابطے میں ہیں اور انھوں نے ایف آئی آر درج کرانے کی ہر کوشش کی ہے اور اب انھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے جس کی سماعت جمعرات کو ہوگی۔