Getty Images
’میں یہ ویڈیوز اس لیے بناتی ہوں تاکہ اپنے جیسے طالب علموں کی رہنمائی کر سکوں۔ مجھے مختلف ایجنٹوں کے پاس جانا پڑا تھا جو ایسے کاموں کے لیے بہت زیادہ رقم مانگتے تھے جو آپ محدود مدد اور رہنمائی کے ساتھ خود کر سکتے ہیں۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والی ثانیہ شعیب یورپ کے ملک ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں ماسٹرز کی طالبہ ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے بیرون ملک جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے طریقے بتاتی ہیں۔
پاکستان کے نوجوان طبقے میں بیرون ملک جانے کی خواہش ایک مقبول موضوع ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بہتات ہے جو ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے مشہور پلیٹ فارمز پر صارفین کو بیرون ملک سکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے یا نوکری کے حصول کے طریقے سمجھاتی ہیں۔
ان ویڈیوز کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں نوجوان طبقہ ملک چھوڑنے میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتا ہے اور ایسی ویڈیوز بنانے والے کون ہیں اور ایسا کس مقصد کے تحت کر رہے ہیں؟
ساتھ ہی ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہماری نظروں کے سامنے کس طرح پہنچ جاتی ہیں؟
’لوگوں کو ان ویڈیوز کے بدلے کچھ نہیں دینا پڑتا‘
لاہور سے تعلق رکھنے والی ثانیہ شعیب ایک سکالرشپ پر ہنگری تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئی تھیں وہ بطور فری لانسر کام کرتی ہیں اور ان کے دو سٹارٹ اپ بھی ہیں۔
ثانیہ کا انسٹاگرام پیج کافی مقبول ہے، جس کے ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ فالورز ہیں، اور وہ اس کے ذریعے بیرون ملک سکالر شپ حاصل کرنے، یورپی یونین میں ورک پرمٹ اور دوسرے ممالک میں جانے کے خواہش مندوں کو مختلف تجاویز دیتی ہیں۔
جب ثانیہ سے ہم نے سوال کیا کہ وہ اس قسم کی مخصوص ویڈیوز کیوں بناتی ہیں تو انھوں نے بتایا کہ 2017 میں اے لیول مکمل کرنے کے بعد سے وہ بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے مقیم ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں یہ ویڈیوز اس لیے بناتی ہوں تاکہ اپنے جیسے طالب علموں کی رہنمائی کر سکوں۔ مجھے مختلف ایجنٹوں کے پاس جانا پڑا تھا جو ایسے کاموں کے لیے بہت زیادہ رقم مانگتے تھے جو آپ محدود مدد اور رہنمائی کے ساتھ خود کر سکتے ہیں۔‘
ثانیہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے چند ماہ پہلے ہی ان موضوعات پر ویڈیوز بنانا شروع کی ہیں اور ان کے اکثر فالورز کو ان کی ویڈیوز بہت پسند ہیں کیوں کہ ’یہ سیدھا مدعے کی بات کرتی ہیں، معلومات سے بھرپور ہوتی ہیں اور اس سب کے بدلے لوگوں کو انھیں کچھ نہیں دینا پڑتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ انھیں طالب علموں کے پیغامات موصول ہوتے ہیں جو ان سے ملک سے باہر جانے اور گھر والوں سے مالی مدد کے بغیر گزارا کرنے کے بارے میں سوالات کرتے ہیں۔
ثانیہ کہتی ہیں کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ’ایک ویڈیو لوگوں کے لیے کتنی مدد گار ثابت ہو گی۔‘
’کسی کو سکالر شپ ملتا ہے تو بہت اچھا لگتا ہے‘
چترال سے تعلق رکھنے والے فرداد بیگ اور لاڑکانہ کی سہا سعید شادی شدہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ دونوں ’بیگ اینڈ بیگم‘ کے نام سے موجود ہیں جہاں انسٹاگرام پر ان کے 91 ہزار سے زیادہ فالورز ہیں جبکہ یہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر بھی موجود ہیں اور مختلف ممالک میں جانے اور سکالر شپ حاصل کرنے کے طریقے بتاتے ہیں۔
کینیڈا میں کیلگری میں مقیم فرداد بیگ پبلک ہیلتھ پالیسی کنسلٹنٹ ہیں جبکہ سہا لرننگ ڈیزائن سپیشلٹ ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فرداد نے بتایا کہ ان دونوں کو 2017 میں امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے فل برائٹ سکالر شپ ملا اور وہ امریکہ چلے گئے۔
اس دوران انھوں نے اپنے سفر کو سوشل میڈیا کی مدد سے محفوظ بنانا شروع کیا تاہم ان کو احساس ہوا کہ ان کے تجربے سے دیگر افراد کو بھی مدد مل سکتی ہے۔
فرداد کہتے ہیں کہ ’بیرون ملک جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوشل میڈیا مواد بنانے کی وجہ فل برائٹ سکالرشپ کا ہماری زندگی پر اثر تھا۔‘
انھوں نے کہا وہ دونوں ایک چھوٹے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
’اس سکالرشپ نے ہماری بہت مدد کی، ملک واپس آ کر صوبائی حکومتوں کے لیے تعلیم اور صحت کے اداروں میں کام کرتے رہے، ایسا کبھی ممکن نہ ہوتا اگر امریکہ کی نامور یونیورسٹیوں سے ماسٹر نہ کیا ہوتا۔‘
فرداد نے بتایا انھوں نے ابھی تک اس موضوع پر تقریباً 350 کے قریب کنٹینٹ یا مواد تیار کیا ہے جو صرف ویڈیوز تک محدود نہیں بلکہ وہ اس پر لکھ بھی چکے ہیں۔
فرداد اور سہا سے بھی لوگ بیرون ملک مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور امیگریشن کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہونے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران زیادہ تر سوالات قلیل مدتی سٹڈی ویزے کے بارے میں ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس وقت بہت اچھا محسوس ہوتا ہے ’جب دور دراز علاقوں سے کسی صارف کا پیغام ملتا ہے کہ انھیں سکالرشپ مل گیا کیونکہ ایسے لوگوں کے پاس زیادہ مواقع نہیں ہوتے۔‘
فرداد نے کہا کہ ’ایک شخص کو ایسی اوپرچونٹی (موقع) ملنے سے اس کی ساری فیملی کی قسمت بدل سکتی ہے، ہم نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ ایسا کنٹینٹ بنانے کی بہترین بات ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے نوجوان اپنا ملک چھوڑ کر باہر کیوں جانا چاہتے ہیں؟
نوجوان سرمایہ کاروں کو پیسے کمانے کا راستہ دکھانے والے انڈین یوٹیوبرز جو راتوں رات مشہور ہوئے
پاکستانی نوجوان انٹری لیول پر ہی ایک لاکھ روپے تنخواہ کن شعبوں میں حاصل کر سکتے ہیں؟
AFPنوجوان بیرون ملک کیوں جانا چاہتے ہیں؟
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلیپمنٹ سٹڈیز (پائڈ) کی جوائنٹ ڈائریکٹر اور ریسرچر ڈاکٹر در نایاب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے کے سروے سے یہ معلوم ہوا کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے 62 فیصد نوجوان پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر در نایاب کا کہنا تھا کہ سروے میں حصہ لینے والے نوجوانوں نے پاکستان میں ملازمت اور پیسہ کمانے کے محدود مواقع، نوکری کے لیے سفارش اور تعلقات کا ضروری ہونا ان وجوہات میں شمار کیا جن کے باعث وہ بیرون ملک جانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے۔
ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ لوگوں نے بیرون ملک باعزت زندگی گزارنے کی خواہش بھی ایک وجہ بتائی۔
فرداد بیگ کہتے ہیں کہ ’بیگ اینڈ بیگم‘ پر ملنے والے پیغامات سے انھیں پاکستانیوں کی ملک چھوڑنے کی جن وجوہات کا علم ہوا ان میں کم تنخواہیں، عدم تحفظ کا احساس اور ملک میں سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔
جب فرداد سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ملک کیوں چھوڑا تو ان کا کہنا تھا کہ فل برائٹ سکالر شپ کے بعد وہ دنیا گھوم کر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو دیکھنا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی وجوہات مختلف ہیں۔’ہمارے کیس میں ملک چھوڑنے کے بعد ہماری آمدنی کم ہوئی ہے۔‘
ثانیہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے میں یورپ سے پاکستان چکر لگا لیتی ہوں۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’موجودہ معاشی صورتحال میں گزارا کرنا بہت مشکل ہے لہذا لوگ اپنی اور اپنی فیملیز کی زندگیاں بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ لہذا ابھی کے لیے میں اپنی معلومات میں اضافہ کروں گی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی بیرون ملک جانے کے حل کی آپشنز دوں گی۔‘
ایسی ویڈیوز آپ کی سکرین پر کیوں آتی ہیں؟
یہ بات تو اب عام فہم ہے کہ جو بھی چیز سوشل میڈیا پر ہمیں نظر آتی ہے وہ اس کی کمپنی کا ایلگوردم ہمارے سامنے رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ لیکن باہر جانے کے طریقے بتانے والی ویڈیوز ہمیں کیوں نظر آتی ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ایلگوردمز کے ساتھ نبرد آزما ہونا ’سوشل چیمپ‘ کمپنی کے سی ای او سمیر احمد کا معمول کا کام ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ٹک ٹاک ترجیحی بنیاد پر آپ کے علاقے میں جو ویڈیوز پسند کی جا رہی ہیں وہ آپ کو دکھاتا ہے۔ اگر آپ وہ پسند کرتے ہیں، تھوڑی دیر دیکھتے ہیں یا کسی اور قسم کے مثبت رویے کا اظہار کرتے ہیں تو ٹک ٹاک کو سمجھ آ جاتی ہے کہ اس صارف کو ایسی ویڈیوز پسند ہیں لہٰذا ویسی ویڈیوز آپ کے سامنے آتی رہتی ہیں۔‘
دوسری جانب انسٹاگرام اور فیس بک کے بارے میں سمیر کا کہنا تھا کہ ’ان پلیٹ فارمز پر اگر آپ کسی موضوع پر کچھ لکھتے ہیں تو اسے آپ کی دلچسپی کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے اور اس سے متعلق کنٹینٹ آپ کے سامنے آنا شروع ہو جاتا ہے۔‘