Reuters
سندھ کے حکام کے مطابق شاہراہ فیصل کے قریب واقع کراچی پولیس آفس (کے پی او) کی عمارت پر حملہ کرنے والے تین دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جمعے کی شب ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ کے پی او حملے میں پولیس کے دو جوان، رینجرز کا ایک اہلکار اور ایک شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اس آپریشن میں تین دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ادھر مراد علی شاہ نے بتایا کہ ’کراچی پولیس آفس میں تین دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ پولیس، رینجرز اور فوج کی مدد سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا اور عمارت کلیئر کروائی گئی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پولیس والوں نے بڑی بہادری دکھائی۔ ہمارے دو پولیس کے جوان، ایک رینجرز کا جوان اور ایک شہری، جو وہاں کام کرتا تھا، شہید ہوئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پولیس اور رینجرز کے 14 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنھوں نے بڑا منصوبہ ناکام بنایا۔‘
مراد علی شاہ نے کہا کہ اس واقعے کی انکوائری کی جائے گی اور امید ہے کہ اس سے کراچی میں پی ایس ایل میچز پر اثر نہیں پڑے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کے پی او حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔‘ انھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔
Reutersحملہ آوروں نے ’دونوں اطراف فائرنگ کی، گرینیڈ پھینک کر کے پی او عمارت میں داخل ہوئے‘
سینٹرل پولیس آفس سندھ نے ایک بیان میں کہا کہ ’پولیس کمانڈوز نے مقابلے کے دوران کے پی او میں داخل ہونے والے تین دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔ ایک دہشتگرد پولیس کی فائرنگ کے دوران جیکٹ پھٹنے سے جبکہ دو پولیس کی فائرنگ کے تبادلے میں‘ ہلاک ہوئے۔
ڈی آئی جی ایسٹ مقدس حیدر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’شام کو سات بجے مجھے اطلاع ملی کہ تھانہ پر حملہ ہوا ہے۔ ہمارے پاس تھریٹ کی وجہ سے کیو آر ایف تھی، ہم نے اسے موو کیا جس نے بتایا کہ انھوں (دہشتگردوں) نے تھانے پر فائرنگ کی اور کراچی پولیس آفس پر گرینیڈ مار کر گھس گئے ہیں۔ انھوں نے ابتدائی طور پر کم از کم 20 سے 25 گرینیڈ مارے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دہشتگردوں نے دونوں اطراف سے صدر تھانے اور کے پی او پر فائرنگ کی۔ ’ٹیم کے پہنچنے پر ہم نے عمارت کو گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کیا۔ فوج اور رینجرز کو طلب کیا گیا۔ ہم کے پی او کو گھیر کر اندر داخل ہوئے اور کامیابی سے آپریشن مکمل کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے گاڑی سے اترنے والے پانچ دہشتگردوں کو دیکھا۔ گاڑی سے اترتے ہی انھوں نے دونوں جانب فائرنگ کی اور گرینیڈ پھینکے۔‘
انھوں نے کہا کہ دہشتگرد کراچی پولیس آفس کے مین گیٹ سے داخل ہوئے۔
زخمیوں کے لیے سہولیات کا جائزہ لینے کے بعد آئی جی سندھ غلام نبی میمن صحافیوں کو بتایا کہ حملہ آوروں نے چھٹی کے وقت حملہ کیا اور بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے کم نفری کی موجودگی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ آپریشن میں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا۔
دوسری طرف وفاقی وزیرِ داخلہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف مذمت کافی نہیں۔ ’پشاور حملے کے دو، تین ہفتوں میں واقعہ تشویشناک ہے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پولیس کے دفاتر گنجان آباد علاقوں میں ہوتے ہیں، اس لیے وہ ’سافٹ ٹارگٹ‘ بنتے ہیں۔