BBC
ترکی کے ایک ہسپتال میں پانچ سال کا اراس بڑے سے بسترپرکمر کے سہارے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی سی کھلونا گاڑی ہے جس کے ساتھ وہ کھیل رہا ہے۔
ننھے اراس کی کہانی بھی ترکی کے زلزلے سے نکلنے والے معجزات میں سے ایک ہے۔
امدادیٹیموں نے چھوٹے سے اراس کو زلزلے کے 105 گھنٹےگزرنے کےبعد تباہ حال شہر کارامان مارس میںموجود اس کےگھر کے ملبے کے انبار سے نکالا تھا۔
جب ریسکیو آپریشن میں بازیاب کروانے کے بعد اراس کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں لایا گیا جب تک شدید سردی کے باعث انھیں ہائپوتھرمیا شروع ہو چکا تھا اور ان کے جسم کا درجہ حرارت کم ہو کر 28 ڈگری سیلسیس تک آگیا تھا۔
اس ملبے سے اراس کو توزندہ نکال لیا گیا تاہم اس کی سات سالہ بہن ہیرانور ، نو سالہ بھائی الپ اوروالد نہ بچ سکے۔
اراس بھی ان بے شمارافراد میں شامل ہیں جن کے خاندان اس تباہ کنقدرتی آفت کے باعث ختم ہو گئے۔
اراس کے سرہانے موجود ان کے عمررسیدہ دادا مہمتاپنے پوتے کے بالوں کو آہستہ آہستہ سہلا رہے ہیں۔
’اراس ایک تمیز داراور مخلص بچہ ہے۔ اس کی شخصیت مضبوط ہے اور جس میں کوئی بگاڑ موجود نہیں۔‘
اراس کے دادا مہمت اگرچہ اب 72 سال کےہو چکے ہیں تاہم وہ بقایا زندگی اراس کی دیکھ بھال ایسے ہی کرنے کے لیے پر عزم ہیں جیسے وہان کا پوتا نہیں اپنا بیٹا ہو۔
امدادای کارکوں نے اس کی جان بچا کر بہت اچھا کیا اور خدا کے فضل سے اراس کو زندہ سلامت ہمارے حوالے کر دیا۔‘
ڈاکٹر جبپانچ سالہ اراس کےسوجے ہوئے بائیں پاؤں پر پٹی بدلتے ہیں تو وہ درد سے کراہتا ہے تاہم وہ بہت تیزی سے صحت یاب ہو رہا ہے۔
زلزلے کی تباہی میں اراس کی ماں کو بھی بچا لیا گیا ہے تاہم اس سانحے کے بعد سے اراس اپنی ماں سے نہیں مل سکا کیونکہ وہ شہر کے ایک اور دوسرے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ڈاکٹرز کو پوری امید ہے کہ وہ بھی جلد صحت یاب ہو جائیں گی۔
BBCڈاکٹرمہمت نے اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیےاستنبول سے ز کارامان مارس تک کا سفر انتہائی عجلت میں کیا تھا۔
جس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں اراس کو داخل کر کے اس کی جان بچائی گئی وہ اسرائیلی ڈاکٹرز کا قائم کیا ہوا ہے۔
لیکن جب ہم پیر کو اس وارڈ میں سے گزرے تو دیکھا کہ یہاں صرف ایک اراس ہی داخل نہیں بلکہ یہاں موجود ایک 65 سالہ شخص کی کہانی بھی ایسی ہے جس کو سن کر معجزوں پر یقین ہو جاتا ہے۔
شام سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ سمیر نے منجمد کرنے والی سردیمیں ملبے کے انبار تلے چھ راتیں گزاریں جب ان کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔
سمیر کی جان تو ڈاکٹرز نے بچا لی لیکناس کے لیے ان کی دونوں ٹانگیں کاٹنا پڑیں۔
اردگردبکھری تباہی کے درمیان موجود طبی ماہرین کے لیے یہ ایک تھکا دینے والا اور تکلیف دہ ہفتہ رہا ہے۔
بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر مہمت سیھان نےاپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے ترکی کے شہراستنبول سے زلزلے سے تباہ حال کارامان مارس تک کا سفر انتہائی عجلت میں کیا تھا۔
’یہ بہت برا ہوا ہے،بے شمار بچے اپنے والدین کو کھو چکے ہیں۔مجھے نہیں معلوم مگر یہ میرے لیے بہت مشکل ہے، بہت ہی مشکل۔‘
BBC’یو کے میڈ‘ کے ڈاکٹرز کی ٹیم میںڈاکٹر برایونی پوائنٹین بھی شامل ہیں
بین الاقوامی طبی امداد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والے کارامان مارسسے نکل کر بہت آگے تک پہنچ گئی ہیں۔
ترکوگلو کے قصبے میںنیشنل ہیلتھ سروسز برطانیہ کےڈاکٹرز کے لگائے گئے سبز خیمے ترکی کے سرخ ترپال والےخیموں کے درمیان لگائے گئے ہیں۔
برطانیہ کے ڈاکٹر اس قصبہ میں زلزلے سے تباہ ہو نےوالے ہسپتال کے ساتھ میدان میں ایک فیلڈ ہسپتال بھیبنا رہے ہیں۔
زلزلے کےفوری بعدکیہنگامیصورت حال میں کی جانے والی دیکھ بھال کی ضرورت شاید اب اتنی شدید نہ ہو تاہم اب بھییہاں موجود 80 ہزارسے زائدافراد ایسے ہیں جن کو طبی خدمات میسر نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ترکی اور شام میں زلزلہ: دھوکے باز کیسے مصنوعی ذہانت اور ٹک ٹاک کے ذریعے عطیہ دینے والوں کو لوٹ رہے ہیں؟
وہ تصویر جو ترکی اور شام میں زلزلے کے بعد تباہی اور درد کی داستان سناتی ہے
ترکی کا زلزلہ جہاں ماں اپنے دس دن کے بچے کے ساتھ ملبے کے پہاڑ تلے چار دن تک دفن رہی
حکومت برطانیہ کی سرپرستی میں قائم طبی خیراتی اداے ’یو کے میڈ‘ کے ڈاکٹرز کی ٹیم میںڈاکٹر برایونی پوائنٹین بھی شامل ہیں۔
’ہم یہاں ترک ڈاکٹرز اور نرسز کے ساتھ کام کر رہے ہیں ، ہم ان متاثرین کی مدد کے لیے اپنے خیمے لگا کرمریضوں کو دیکھ رہے ہیں لیکنان کی تعداد بہت ذیادہ ہے۔‘
’ایک جانب جہاںقدرتی آفات سے متاثر افراد آپ کے اردگرد موجود ہیں وہیں بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کو اس سانحہ سے قبل بھی معمول کی بیماریاں اوردائمی امراض کا سامنا ہے۔ وہ لوگ اب بھی بیمار ہیں اور ان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے سہولیات نہیں ۔ لہذا ہمجتنا بھی ہو سکے انتمام مریضوں کی بھی دیکھ بھال بھی کر رہے ہیں۔‘
ترکی کی تباہی سے زخمیوں کیمدد کے لیے دنیا بھر سے ڈاکٹرز اور نرسیں اب ترکی میںموجود ہیں لیکن اس سانحے نے انفرادی اور قومی سطح پرشدید ذہنی صدمہ سے دوچار کر دیا ہے۔