BBCزلزلے سے متاثرہ چھ ماہ کیاس بچی کا چہرہ زخمی ہے اور اس کی شناختکے ٹیگ میں ’گمنام‘ لکھا ہے
ترکی کے اڈانا سٹی ہسپتال میں داخل زخمی بچوں میں بعض اتنے کم عمر ہیں کہ انھیں خود اندازہ بھی نہیں کہ ان کا کتنا نقصان ہو چکا ہے۔
میں نے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈاکٹرز کو چھ ماہ کی ایک زخمی بچی کو بوتل سے دودھ پلاتے ہوئے دیکھا جس کے والدین کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ یہاں ایسے مزید سینکڑوں بچے موجود ہیں جن کے والدین یا تو زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں یا لاپتہ ہیں۔
زلزلے نے پہلے ان کے گھر تباہ کر دیے اور اب ان سے ان کی شناخت بھی چھین لی ہے۔
ڈاکٹر نُرسہ کیسکن نے آئی سییو میں داخل بچی کا ہاتھتھام لیا جسے اب صرف اس کے بستر پر لگے ٹیگ سے جانا جاتا ہے جس پر اس کی شناخت ’گمنام‘ لکھی ہے۔
اس بچی کی کئی ہڈیاں ٹوٹیں ہوئی ہیں، اور اس کا چہرہ بری طرح زخمی ہے جبکہ آنکھ پر سیاہ نیل ہیں تاہم وہ ہمیں دیکھ کرمسکراتی ہے۔
ہسپتال کے ماہر امراض اطفال اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیسکن نے زخمی بچی سے متعلق تفصیلاتسے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں یہ توعلم ہے کہ یہ بچیکہاں سے ملی اور یہاں تک کیسے پہنچی تاہم اس کا پتہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری تلاش ابھی تک جاری ہے۔‘
BBC
ان میں سے زیادہ تر ایسے بچے ہیں جنھیں دوسرے علاقوں میں زلزلے سے تباہ شدہ عمارتوں سے نکال کر اڈانا کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بہت سے دوسرے طبی مراکز یا تو منہدم ہو گئےہیں یا ان کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے ایسے میں اڈانا ایک امدادی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے۔ امدادی کارروائیوں کے دوران نوزائیدہ بچوں کو اسکندرون شہر کے ایک ایسے ہسپتال کے زچگی وارڈ سے یہاں پہنچایا گیا جو زلزلے سے متاثر ہو کر بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔
ترکی کے صحت کے حکام کے مطابق ملک میں زلزلے سے متاثرعلاقوں میں اس وقت 260 سے زیادہ ایسے زخمی بچے موجود ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اس تعداد میں ابھی مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے کیونکہمزید علاقوں تک رسائی ہونے سے بے گھر ہونے والوں کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔
BBC ڈاکٹرز کے مطابقبہت سے بچے صدمے اور خوف کے باعث بات نہیں کرپا رہے
میں ڈاکٹر کیسکن کے ساتھزخمیوں سے بھرے ایکبرآمدے میں چل رہا تھا جہاں بچ جانے والے زخمی افراد ٹرالیوں پر لیٹے تھے جبکہ کچھ کو ایمرجنسی ایریا میں بستروں پرکمبل اوڑھا کر رکھا گیا تھا۔
ہم ایک ایسیبچی سے بھی ملے جس کی عمر ڈاکٹروں کے مطابق پانچ سے چھ سال ہے۔ وہ بچی سو رہی تھی اور اسے دوائی قطروں کی صورت میں اس کی کلائی سے بندھی ڈرپکے ذریعے دی جا رہی تھی۔
طبی عملے کے مطابق اس چھوٹی بچی کے سرمیں گہری چوٹ اور متعدد فریکچر ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ انھیں اپنا نام بتانے میں کامیاب رہی؟ میرے اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایلیکنور بینلے سیکر کا جواب نفی میں تھا۔
’نہیں، یہبچی صرف آنکھوں سے رابطہ اور اشارے کر پاتی ہے۔ بہت سے بچے صدمے کی وجہ سے بات تک نہیں کر پا رہے، وہ اپنے نام جانتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جبایک سےدو روز میںان کی حالت بہتر ہو گی تو ہم ان سے بات کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔‘
محکمہ صحت کے اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ ان شناخت سے محروم بچوں کے گھروں اور والدین کے پتے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اب وہاں اکثرعمارات کے بجائے محضکھنڈرات ہیں۔
ترکی کے سوشل میڈیا پر بھی گمنامبچوں سے متعلق پیغامات بھرے ہوئے ہیں جہاں موجود تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں میں وہ بچے کس منزل پر رہتے تھے۔ بعض پیغامات میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ غالباً انھیں بچا لیا گیا ہو گا اور طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
ترکی و شام میں زلزلہ: ملبے میں پھنسے افراد کی تلاش کیسے کی جاتی ہے؟
وہ تصویر جو ترکی اور شام میں زلزلے کے بعد تباہی اور درد کی داستان سناتی ہے
ترکی زلزلہ: ’میں نے اس بچے کی آنکھوں میں جو دیکھا اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا‘
یہاں زندہ بچ جانے والے مریضوں اور طبی عملے کا دکھایک جیسا ہے۔
ڈاکٹر کیسکن بھی متاثرین میں سے ہیں جنھوں نے زلزلے میں اپنے رشتہ داروں کو کھو دیا اور آفٹر شاکس کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ ہسپتال میں پناہ لی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کر رہی ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں ٹھیک ہوں، اور ٹھیک رہنے کی ہی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ ان (بچوں) کو واقعی ہماری ضرورت ہے۔ لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوںکہ میرے پاس اب بھی میرے بچے موجود ہیں۔ ایک ماں کے لیے اپنے بچے کو کھونے سے بڑا دکھ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘
ہم سے کچھ آگےوارڈز میں بعض بچے اپنے والدین کے واپس آنے کے منتظر ہیں۔ کچھ بچوں کو ان کے خاندان سے دوبارہ ملا دیا گیا ہے تاہمابھی بھی بہت سےزلزلے کے گمنام بچے ہی ہیں۔