انڈیا نے اپنی افواج کو جدید طرز پر استوار کرنے کی جانب قدم بڑھایا ہے جس کی وجہ چین اور پاکستان کے خلاف دفاعی قوت کو مضبوط بنانا بتایا جاتا ہے۔
انڈیا کے اخبار ’تلنگانہ ٹوڈے‘ میں 24 دسمبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’فوج کو جدید بنانے کی فوری ضرورت‘ ہے۔
واضح رہے کہ عددی اعتبار سے انڈیا کی فوج دنیا کی سب سے بڑی فوجوں میں سے ایک ہے جس میں مجموعی طور پر 14 لاکھ فوجی ہیں۔
26 جنوری کو انڈین خبر رساں ادارے ’اے بی پی‘ نیوز نے بھی یہ خبر دی تھی کہ انڈیا اپنی فوج کو جدید بنانے کی کوششیں کر رہا ہے اور حال ہی میں CNBC TV-18 کے مطابق وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے 2023-24 کے لیے پیش کیے گئے بجٹ میں دفاعی شعبے کے بجٹ میں 12 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔
انڈیا کی صدر دروپدی مرمو نے حال ہی میں یہ بیان دیا تھا کہ انڈیا مسلسل فوجی قوت کو بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب انڈیا کو چین اور پاکستان سے تناؤ میں اضافے کا سامنا ہے تو فوج کو جدید خطوط پر تیار کرنے کو ایک ضروری قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
22 جنوری کو انڈین دی ویک میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دفاعی ماہر سنجیو کمار باروہ نے کہا کہ ’چین کی پیپلز لبریشن آرمی انڈین فوج کو جدید بنانے کی ضرورت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‘
انڈیا کی حکومت نے حال ہی میں کئی نئے دفاعی منصوبے شروع کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں؛
P75I آبدوزپانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کے لیے جدید میڈیم جنگی طیارےتیجس ایم کے 2 ملٹی رول فائٹر ایئر کرافٹہلکا ٹینک ’زوراور‘
اہم بات یہ ہے کہ جدت کی اس کوشش کے اثرات برّی، فضائی اور بحری تینوں دفاعی قوتوں میں نظر آئیں گے۔
انڈین فضائیہ نے پہلے ہی رافیل لڑاکا طیارے حاصل کر لیے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سپرسونک کروز میزائل براہموس اور ہلکے جنگی ہیلی کاپٹر پرچنڈ کو بھی فضائیہ میں شامل کیا گیا ہے۔
انڈین بحریہ کی تیاریاں
انڈیا کی حکومت بحریہ کو بھی جدید بنانے کی سمت میں تیزی سے کام کر رہی ہے۔
فرسٹ پوسٹ ویب سائٹ میں 23 جنوری کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق 7516 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے ساتھ انڈین بحریہ ملک کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نئی حکمت عملی کے تحت کئی جنگی جہازوں کو بحریہ میں شامل کیا گیا ہے جن میں مقامی طور پر تیار ہونے والا جنگی جہاز آئی این ایس وکرانت اور آئی این ایس ’وگیر‘ جیسی آبدوزیں شامل ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا میں 25 جنوری کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق یہ فیصلے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب سمندر میں پاکستان اور چین کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے حال ہی میں جدت اور نئی ٹیکنالوجی کی طرف بڑھتی عالمی طاقتوں کی طرف توجہ مبذول کروائی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
فیوچر انفنٹری سولجر سسٹم انڈین فوج کو پاکستانی، چینی فوج پر برتری دلوا سکے گا؟
پرچنڈ: انڈین فضائیہ کو ملنے والے دیسی ساحتہ لڑاکا ہیلی کاپٹرز کے بارے میں نو اہم حقائق
جوہری میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا انڈیا کا نیا انٹرسیپٹر میزائل کن خصوصیات کا حامل ہے؟
خود انحصار انڈیا
فرسٹ پوسٹ کے مطابق ’خود انحصار انڈیا‘ پر زور دیتے ہوئے انڈیا کی حکومت کی کوشش ہے کہ فوج کے لیے ضروری سامان، ہتھیار اور ساز و سامان مقامی طور پر ہی بنائے جائیں۔
چیف آف آرمی سٹاف منوج پانڈے نے 16 جنوری کو کہا تھا کہ خود انحصاری کے ساتھ جدید خطوط پر تیاری ہمارا نیا مقصد ہو گا۔
اس کی ایک جھلک 26 جنوری کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں بھی دیکھی گئی، جس میں انڈیا میں بنائے گئے فوجی ساز و سامان کو دکھایا گیا تھا۔
دوسری جانب انڈیا کی فوج اب تھیٹر کمانڈ سٹرکچر پر زور دے رہی ہے تاکہ فورسز کا بہتر استعمال کیا جا سکے۔
انٹیگریٹڈ تھیٹر کمانڈ ایک مربوط کمانڈ ہے جس کے تحت خطرے کی شدت کے لحاظ سے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے تمام وسائل کو بہتر کوآرڈینیشن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس نظام کے تحت فوج کے تمام حصے اپنی ضرورت کے مطابق ایک دوسرے کے وسائل استعمال کر سکتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے انڈیا میں ایک متحدہ کمانڈ بنانے کی بات ہو رہی تھی لیکن اس نے اس وقت زور پکڑا جب جنوری 2020 میں جنرل بپن راوت کو سی ڈی ایس مقرر کیا گیا۔
21 نومبر کو ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ چین نے تھیٹر کمانڈ پر کام شروع کر دیا ہے اور اب وہ پاکستان کی بھی مدد کر رہا ہے۔
فوج کی متحد کمان کا خیال انڈیا میں نیا نہیں ہے۔ 1999 کی کارگل جنگ کے بعد پہلی بار اس کی سفارش کی گئی تھی۔
دفاعی ماہر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل پردیپ بالی نے کہا ہے کہ ’چین انڈیا کے لیے تشویش کا باعث ہے اور رہے گا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ ہمالیہ تک پھیلا ہوا ہے۔‘
دوسری جانب انڈین فضائیہ کے ایئر مارشل انیل چوپڑا نے کہا ہے کہ تینوں افواج کی جدید کاری کو صحیح طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔