انڈین وزیر اعظم مودی نے جن پسماندہ مسلمانوں کی بات کی وہ آخر کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jan 23, 2023

'پسماندہ' مسلمان کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ایک کانفرنس میں اس کا استعمال کرنے کے بعد سے پسماندہ کے تناظر میں اس کے لغوی، سماجی اور تاریخی معانی میں دلچسپی دوبارہ پیدا ہوئی ہے۔

انڈیا میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی منگل کو اختتام پزیر ہونے والی ایگزیکٹو میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کارکنوں سے ’ووٹ کی فکر کیے بغیر‘ سماج کے تمام طبقات سے حساسیت کے ساتھ تعلق رکھنے کی اپیل کی۔

اس تناظر میں بوہرا برادری، پسماندہ مسلمانوں اور دیگر طبقات کا کئی جگہوں پر خصوصی طور پر تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

پسماندہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پیچھے رہ جانے والے کے ہیں۔ آسان الفاظ میں جو مسلمان ترقی کی دوڑ میں دیگر طبقات کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے ہیں انھیں پسماندہ کہا جاتا ہے۔ ان کے پس پشت ذات پات کے نظام کو بھی ایک وجہ کے طور پر بتایا جاتا ہے۔

لفظ پسماندہ سب سے پہلے ’طبقے‘ کے لیے استعمال کیا گیا تھا، لیکن برسوں بعد یہ مسلمانوں کے اندر (دیگر پسماندہ ذاتوں)، درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔

راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمنٹ اور صحافی علی انور انصاری نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد مذہب کے گرد گھومنے والی سیاست سے مایوس ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر طبقات کی شناخت کی جائے اور مذہب کی بنیاد پر ہونے والی سیاست کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔

علی انور انصاری نے اس کے لیے تحقیق کی اور فیلڈ اسٹڈی کی بنیاد پر انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک کتاب 'مساوات کی جنگ' لکھی۔

EPAکیا انڈیا کے مسلمانوں میں ذات پات کا نظام رائج ہے؟

تاہم مسلمانوں کا ایک طبقہ برادری میں کسی بھی قسم کے ذات پات کے نظام، اعلی ادنی، افضل و ارزل وغیرہ کی تقسیم سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو مساوات پر یقین رکھتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی ذات پات کا نظام کافی مضبوط ہے۔‘

اس معاملے میں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی بات سلویا وٹوک جیسی ماہرین سماجیات نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ذات پات کے نظام کو ہندو سماج کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے، یعنی یہ اس قسم یا اس سطح کا نہیں ہے جو ہندو معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوسرے، یہ کہ ذات پات کا نظام جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے اندر محدود ہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب دوسرے مذاہب کے لوگوں نے، جن میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی، اسلام قبول کیا تو وہ پرانی روایات اور کچھ رسم و رواج کو ساتھ لے کر آئے، ذات پات ان میں سے ایک ہے۔

Getty Imagesپسماندہ سے پہلے کے الفاظ

بعض حلقوں میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات کا مسئلہ انگریزوں کے دور حکومت کا پیدا کردہ ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے 'سرکاری' مسلمانوں کے ساتھ مل کر اسے تیار کیا تاکہ قوم تقسیم ہو جائے۔

یہ کچھ اسی طرح کی دلیل ہے جو ہندو برادری میں ذات پات کے لیے ایک طبقہ دیتا رہا ہے۔

پہلے زمانے میں ہندوستانی مسلمانوں کے ذات پات کے نظام کو بیان کرنے کے لیے اشرف، اجلاف اور ارزل جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔

معروف ماہر عمرانیات امتیاز احمد نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ’اشرف کا مطلب اعلیٰ طبقہ ہے، جس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے آباؤ اجداد کا تعلق عرب، ایران اور افغانستان سے تھا۔ ان میں ہندو بھی شامل ہیں جو اعلیٰ ذات کے تھے اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا ’دلت مسلمانوں‘ کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوششیں بی جے پی کی ’چالاکی پر مبنی سیاسی چال‘ ہے؟

خوف میں زندگی گزارتے اترپردیش کے چار کروڑ مسلمان

’مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے نہ ڈرے گا‘

یعنی اشرف برادری مسلمانوں میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی طرح اشرافیہ برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں سید، شیخ، مغل، پٹھان، مسلم راجپوت، تاگا یا تیاگی مسلم، چودھری مسلم، گریہ یا گور مسلم شامل ہیں۔

اجلاف، وہ مسلمان ہیں جنھوں نے نچلی ہندو ذاتوں سے مذہب تبدیل کیا اور مسلم مذہب میں شامل ہوئے۔ اس میں دھوبی، درزی، حجام، بنکر یا جولاہے، تیل والے، بھشتی، رنگساز شامل تھے۔ اجلاف مسلمانوں میں انصاری، منصوری، کاسگر، رائن، گجر، بنکر، گرجر، گھوسی، قریشی، ادریسی، نائیک، فقیر، سیفی، علوی، سلمانی جیسی ذاتیں شامل ہیں۔

ارزل وہ دلت ہے جس نے اسلام قبول کیا تھا۔

BBCپسماندہ آبادی کی مجموعی تعداد کیا ہے؟

ذات پات کی مردم شماری کی عدم موجودگی میں اس بات کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے کہ کل مسلم آبادی میں پسماندہ برادری کی تعداد کتنی ہے، لیکن 1931 کی مردم شماری کی بنیاد پر جس میں آخری بار ذات کا بھی شمار کیا گیا تھا، پسماندہ برادری سے وابستہ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد 80-85 فیصد تک ہونی چاہیے۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر خالد انیس انصاری کہتے ہیں کہ اشرف مسلمان تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ تھا جس کے مطابق پسماندہ لوگوں کی آبادی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

برطانوی راج کے قیام سے پہلے نام نہاد اشرافیوں کو نوکریوں سے لے کر زمین تک ہر چیز میں ترجیح دی جاتی تھی۔

انڈیا میں اس کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جسے منڈل کمیشن کا دیا گیا تھا۔ اس نے کم از کم 82 سماجی گروہوں کی نشاندہی کی تھی جنھیں پسماندہ مسلمانوں کے طور پر درجہ بندی میں رکھا تھا۔

نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے مطابق مسلمانوں میں او بی سی کی آبادی 40.7 فیصد ہے جو کہ ملک میں پسماندہ طبقات کی کل تعداد کا 15.7 فیصد ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کی حالت جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جسے سچر کمیشن کا نام دیا گیا۔ اس نے کہا ہے کہ انھیں حکومت سے جو فوائد ملنا چاہیے تھے وہ ان تک نہیں پہنچ رہے ہیں، کیونکہ جہاں ہندو پسماندہ-دلتوں کو ریزرویشن کا فائدہ ہے، وہیں مسلم آبادی کو یہ فائدہ نہیں مل رہا ہے۔

علی انور پسماندہ مسلم محاذ نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں، جسے ایک قسم کا پریشر گروپ سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ گروپ ایس سی-ایس ٹی (شیڈیول کاسٹ اور شیڈیول ٹرائب یعنی آئین ہند میں ذاتوں کی درجہ بندی) کی طرز پر دلت مسلمانوں کے لیے بھی ریزرویشن کا مطالبہ کر رہا ہے۔

پسماندہ سماج کی نمائندگی کے لیے بہت سی دوسری تنظیمیں ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی سرگرم ہیں، جیسے کہ آل انڈیا پسماندہ مسلم مورچہ، پسماندہ فرنٹ، پسماندہ سماج وغیرہ۔

پسماندہ تحریک اگرچہ کوئی نئی نہیں ہے اور آزادی سے پہلے بھی اس کے حوالے سے آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں، لیکن اب یہ جنوب سے لے کر مشرق تک کی ریاستوں میں کسی نہ کسی شکل میں سامنے آرہی ہے یا کچھ جگہوں پر اس کی تیاری چل رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More