اونٹ کو صحرا کا مہاراجہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ جانور ہے جو سخت سخت دھوپ اور گرمی میں تپتی ریت پر ایسے اپنا بسیرا کرلیتا ہے جیسے اس کو گرمی ہی نہ لگ رہی ہو۔ اونٹ کے جسم میں قدرتی طور پر خُدا نے ایک اے سی جیسا سسٹم لگا رکھا ہے جو اسے ان تپتے صحراؤں میں رہنے کے قابل بناتا ہے۔
اگر صحرا میں اونٹوں کو پانی بروقت مل جائے تو وہ کبھی یہاں سے دور نہ جائیں کیونکہ ان کی زندگی کا گزر بسر یہیں ہوتا ہے۔ چونکہ اونٹ سانپ کو بھی کھالیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو یہاں رہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
لیکن تپتے صحراؤں میں اونٹ کیسے چلتے ہیں؟ ان کے پاؤں کے نیچے ویسے تو ایک کیل نما مہری لگی ہوئی ہوتی ہے جو ریت کو پیچھے دکھیلنے کا کام کرتی ہے اور اونٹ آگے کی جانب چل پڑتا ہے لیکن جب صحرا میں کوئی اونچائی آ جائے تو اونٹ کے لیے اپنے پاؤں سے چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اکثر اونٹ چڑھائی چڑھتے وقت اپنے گٹھنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی آگے کی دونوں ٹانگیں جنہیں long legs کہا جاتا ہے، ان کی مدد سے چلتے ہیں۔
آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اونٹ کی چھوٹی دکھنے والی یہ ٹانگیں دراصل لمبی اور بڑی ٹانگیں ہوتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اونٹ ان لمبی ٹانگوں کو کسی بھی چڑھائی یا اونچائی پر چلنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اونٹ کی لمبی ٹانگ کی یہ ہڈی بالکل انسانوں کی نرم ہڈیوں کی طرح ہوتی ہے اور اس میں اتناہی چپچپا مادہ موجود ہوتا ہے جتنا کہ انسان میں ہوتا ہے۔ اونٹ کی ہڈی صرف اس کو آگے بڑھنے میں مدد نہیں دیتی بلکہ یہ ہڈی انسانوں کے لیے بھی بہت فائدے مند ہے، اس کو کے سوپ کو پینے سے نہ صرف ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں بلکہ لقوہ جیسے امراض میں بھی مفید ہے۔