میرا وزن 240 کلو ہونے کی وجہ سے میں اس بیماری میں مبتلا ہوگئی اور علاج کے لئے 14 لاکھ روپے چاہیئے تھے ورنہ میری زندگی۔۔ جانیں خاتون کا وزن کم کرنے کے لئے ڈاکٹر نے کیا کیا؟

ہماری ویب  |  Jul 19, 2021

صحت مند انسان ہی ایک کامیاب زندگی گزارسکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو ہر کام میں توازن سے رواں دواں رکھا ہوا ہوتا ہے ۔ مگر کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کا وزن اس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے کہ وہ چاہ کر بھی کم نہیں کر پاتے، بیماریاں ان کو لگتی رہتی ہیں اور یہ بستر پر پڑے رہ جاتے ہیں جس سے ان کو جسمانی و طبعی ہر قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی پینسٹھ سالہ خاتون ٹیچر کی کہانی بھی بالکل ایسی ہے۔ خآتون بی بی رشیدہ کہتی ہیں کہ: '' میں نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، میں اسکول میں ٹیچر بھی ہوا کرتی تھی، مگر 12 سالوں سے مستقل بستر پر ہوں، نہ میں چل سکتی ہوں، نہ کوئی اٹھ کر کوئی کام کرسکتی ہوں، میرے پاس وزن کم کرنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں ہے اور میرے خاندان میں ہر کوئی موٹاپے کا شکا ہے۔ میں نے ڈاکڑ سے رجوع کیا تھا، جس پر انہوں نے مجھے کہا کہ وزن کم کرنے کا آخری حل صرف اور صرف آپریشن کروانا ہے جس کے لئے آپ کو خود کو تیار کرنا ہوگا، بہرحال میرے پہلے ھی وزن کم کرنے کے کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔، ''

رشیدہ بی بی کے ڈاکٹر معاذ نے بتایا کہ: '' پہلے دوائیوں کے ذریعے رشیدہ بی بی کا 12کلو وزن کم کیا گیا اور پھر آپریشن کر کے ان کا معدہ چھوٹا کیا گیا۔ 6 ماہ بعد رشیدہ بی بی کا وزن 50 کلو گرام تک کم ہو جائے گا۔ میں نے اس غریب خاتون کی مفت سرجری کردی کیونکہ یہ 14 سال سے وزن کی تکلیف میں مبتلا تھیں۔ '' خاتون کے بیٹے کا بھی یہ آپریشن ہوچکا ہے اور وہ بھی اس سے مستفید ہوچکا ہے۔ لیکن رشیدہ بی بی چونکہ ایک خاتون ہیں، ان کو یقیناً کچھ وقت لگ سکتا ہے اور پھر یہ بالکل نارمل ہو جائیں گی۔

انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے سرجن پروفیسر معاذ الحسن نے مذید بتایا کہ: '' بیریاٹرک سرجری پر تقریباً بیس لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے، لیکن کسی اذیت میں مبتلا شخص کی مدد کرنا ہم ڈاکٹروں کا فرض ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جن ڈاکٹروں کو مالی مسائل نہیں ہیں، ان کو چاہیئے کہ وہ کسی حد تک لوگوں کی یوں مدد کریں تاکہ معاشرے میں فلاح و بہبود اور نیک کام چلتے رہیں۔ ''

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More