دو روز قبل انتہائی افسوسناک خبر سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کے کوہِ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے اپنے والد اور ان کے دو ساتھیوں کی موت کی تصدیق کی۔
علی سدپارہ کی ساتھیوں سمیت موت نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے جس کے جواب اگر حکومت یا کسی کو بھی مل گئے تو اصل حقائق سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
تجربہ کار کوہ پیما اپنے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اور حاصل ہوئی معلومات کی بنیاد پر جو رائے قائم کر رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیا یہ کوئی حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی سازش یا غفلت تھی اس کا تعین بہت ضروری ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے ایک سینئر عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما نذیر صابر نے کے ٹو اور ماؤنٹ ایوریسٹ سمیت دنیا کی کئی بلند چوٹیاں کامیابی سے سر کی ہیں۔
انہوں نے نیپالیوں کی لگائی گئی رسی کے حوالے سے سوال اٹھائے۔ ایک ویڈیو میں انہوں نے واضح کہا کہ نیپالیوں نے جو رسی لگائی تھی وہ اس کا ایک ایک انچ اتار کر واپس لے گئے تھے۔ محمد علی سدپارہ کی ٹیم میں کون تھا جو یہ رسی لگاتا؟ جان اسنوری فراسٹ بائٹ کا شکار تھا، موہر اتنا تجربہ کار نہ تھا جو اتنی اونچائی پر رسی لگاتا، ساجد واپس آچکا تھا، اکیلا علی کیا کیا کرتا؟ نذیر صابر کے تجربے کو دیکھتے ہوئے یقیناً ان کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسی کہاں لگائی جاتی ہے؟
دراصل جتنے بھی بڑے پہاڑ ہیں ان پر ساز و سامان کے استعمال کے بغیر کوہ پیمائی ناممکن ہوتی ہے۔ سب سے پہلے کوہ پیماؤں کی حفاظت کے لیے بیس کیمپ سے چوٹی تک مختلف ٹکڑوں میں مضبوط رسی لگائی جاتی ہے۔ یہ کوہ پیما کی ایک فکسڈ لائن ہوتی ہے۔ پہاڑ کی اونچائی کو مدنظر رکھ کر ایک کیمپ سائٹ سے دوسری کیمپ سائٹ تک نہایت مضبوطی سے ایک فکسڈ لائن لگائی جاتی ہے جس پر حفاظت کے ساتھ کوہ پیما چڑھائی کرتے ہیں۔ کوہ پیما نے اس کام کے خصوصی کورسز کیے ہوتے ہیں۔
تاہم ایک اور کوہ پیما اور محقق عمران حیدر تھہیم نے انتہائی تفصیل سے رسی کے حوالے سے تمام امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نیپالی کوہ پیماؤں کے رسی نہ لگانے سے متعلق فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں تو رسی لگانے سے متعلق بھی تو کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ساجد سدپارہ کے پاس صرف 8200 میٹر تک کی معلومات ہیں اس سے آگے کیا ہوا ہوگا اس کا اسے بھی علم نہیں ہے۔
تو کیا نیپالیوں کے اس دعوے کو تسلیم کرنا چاہیے کہ انہوں نے رسی لگائی تھی؟
حکومتی متعلقہ اداروں کو اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔