محمد علی سدپارہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرکے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آج ہر زبان پر ان کا نام ہے اور ان کی تعریفوں کے سوا کچھ نہیں ہے جو کہ پاکستان کے لئے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔
لیکن شکوہ شکایت صرف اس بات کا ہے علی نے اپنی پوری زندگی کوہِ پیمائی کے نام ہر صرف کردی، لیکن جب جب ان کو ہماری ضرورت تھی، ہم میں سے کوئی ان کے ساتھ نہ تھا، کوئی ان کو جانتا تک نہیں تھا، آج وہ دنیا سے جاتے جاتے قوم کے ہیرو بن کر گئے، جبکہ 2003 سے ہی وہ پاکستان کا ایک بڑا اعزاز بن گئے تھے۔
آیئے علی کی زندگی سے متعلق چند ایسے راز آپ کو بتاتے ہیں جو جان کر یقیناً آپ کو احساس ہوگا ہم نے ایک علی نہیں کھویا، بلکہ ہم نے ایک انسانیت کا علمبردار، شوق و جزبے سے بھرپور شخص کو کھویا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
علی کی زندگی کے کٹھن لمحات اور کامیابیوں کی ایک طویل داستاں:
٭ علی سدپارہ 1976 میں گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنی تعلیم حاصل کی۔
٭ محمد علی کی پیدائش سے قبل ان کے 8 بہن بھائی پیدا ہوتے ہی وفات پاگئے تھے اور یہ اپنے والدین کی سب نویں اور آخری اولاد تھے جو اپنے والدین کی آنکھ کا تارہ تھے۔
٭ علی نے پہلی مرتبہ 16 سال کی عمر میں پہاڑوں پر چڑھنا شروع کیا اور جب سے لے کر وقتِ مرگ تک یہ پہاڑوں کی گود میں ہی رہے۔
٭ علی کے پہلے ماؤنٹ ٹرینر (گائیڈر) ان کے چچا حسن سدپارہ تھے، جن سے علی نے کوہ پیمائی سیکھی اور پاکستان کا نام فخر سے بلند کر دیا۔
٭ علی نے پاکستان کی چھوٹی بڑی تقریباً ہر چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کی وہ بھی بغیر آکسیجن کے ، جوکہ دنیا میں صرف 2٪ لوگوں نے کیا ہے، جن میں سب سے زیادہ چوٹیاں کرنے کا اعزاز بھی علی سدپارہ کے نام ہی ہے۔
٭ بچپن سے ہی علی مختلف سرگرمیوں میں گرم جوشی سےحصہ لیتے آئے اور اپنی محنت، لگن اور مضبوط کردار سے ایک تاریخ رقم کر دی۔
٭ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کوہ پیمائی کا باقاعدہ سفر علی نے 2003 میں 27 سال کی عمر میں کیا۔
٭ ان کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور یوں معاشی دباؤ بڑھ گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے شوق کو اپنے روزگار میں بدل لیا اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ بطور پورٹر کام شروع کیا اور 25 کلو وزن لیکر بیس کیمپ تک پہنچاتے تھے۔
٭ علی نے وسائل نہ ہونے کے بعد بھی کوہ پیمائی کے سفر میں ایسا کارنامہ کیا ہے جس کو آج تک کسی پاکستانی نے کرنے کا شاید ہی سوچا ہو۔
٭ علی صرف کوہ پیما ہی نہیں تھے، بلکہ ایک نیک انسان تھے، جنہوں نے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کی پہاڑوں پر چڑھنے میں اتنی مدد کی جو شاید کسی ملک کے گائیڈر کوہ پورٹر نے نہ کی ہوگی۔
٭ یہ دیگر کوہ پیماؤں کے لئے پہاڑ سر کرنے کے لئے راستے بناتے، ان کے لئے رسیاں باندھتے، اپنی جان کی پروہ نہ کرتے بلکہ دوسروں کی جان بچانے کے لئے خود کو کئی مرتبہ خطرے میں ڈالا اور ہر بار اپنے حوصلوں کی جیت ممکن بنائی۔
٭ محمد علی نے 2016 میں پہلی مرتبہ نانگا پربت سر کیا، اس وقت بھی ان کو اتنی ہی پزیرائی ملنی چاہیئے تھی لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں کوہ پیماؤں کی دیکھ بھال کرنے والی حکومت نہیں ہے۔
٭ انہوں نے سیاچن گلیشیئر پر پاکستانی فوجی جوانوں کو روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی پہنچائی جبکہ بھارت کی جانب سے مسلسل مارٹر گولے بھی برس رہے تھے، دن بھی اور رات بھی، اس حادثے میں علی کے 2 ساتھی مارے بھی گئے، لیکن پھر بھی علی نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کام کو بخوبی سر انجام دیا۔
٭ 2016 میں جب عالمی دنیا سے کوہِ نورد اسکردو پہنچ رہے تھے اور علی کے لئے عالمی مبارکبادوں کا سلسلہ جاری تھا اس وقت الپائن کلب آف پاکستان کی جانب سے کچھ لوگوں نے علی کو جھوٹ بولنے کے لئے اور کہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہماری جانب سے کوئی مالی مدد ملتی ہے تو آپ ہاں میں جواب دے دینا، لیکن
علی سد پارہ نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ ایک رسی تک تو آپ لوگ دیتے نہیں ہو تو میں جھوٹ بھی کیوں بولوں؟
٭ چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے پیسےعلی کے غیر ملکی ساتھی ادا کرتے تھے کیونکہ ان کے پاس 8 ہزار ڈالر جیسی بھاری رقم نہیں ہوتی تھی۔
٭ علی کوہ پیمائی کے علاوہ کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے اور اپنے گھر کا خرچہ کھیتی باڑی کرکے بھی پورا کرتے تھے۔
٭ انہوں نے ہر حال میں ثابت قدمی رکھی اور یہ واضح کر دیا کہ حالات مناسب ہوں یا نہیں، وسائل بہتر ہوں یا نہیں، انسان اگر ہمت رکھے تو دنیا خود قدموں میں آ جاتی ہے۔
٭ ہر مہم پر جانے سے قبل علی اپنے بچوں اور گھر والوں کو یہی کہتے تھے پریشان نہ ہو، کچھ نہیں ہوگا، سب بہتر ہوگا، مگر اس مرتبہ قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔
٭ قاتل پہاڑ (کے-ٹو) کو سر کرنے کا سب سے بڑا خواب تو علی نے پورا کرلیا، مگر اب وہ ہمارے درمیان نہ رہے۔