رشتہ طے کرتے وقت ہی کچھ لوگ منہ کھول کر جہیز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ یہ چیز چاہیئے وہ چیز، یا کچھ تو یہ بھی کہ دیتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ہمارے لئے تو سب کچھ ہے لیکن آپ کی بیٹی نئی ہے تو ذرا اس کے لئے انتظامات کرکے بھیجیں۔
کچھ کہتے ہیں کہ ہمارے لڑکے کو گاڑی کا بہت شوق ہے یا کسی کی تو یہ بھی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ بیٹی کو جہیز میں ایک گھر بھی دے دیں جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ لڑکے والے کتنے لالچی اور مانگنے والے ہیں جن کو لڑکی یا شادی کی پروہ نہیں بلکہ ان کی نظر صرف سامان اور پیسوں پر ہے جو کہ لڑکی والے شادی میں بچی کو جہیز کے طور پر دیں گے۔
لیکن اب ہمارے یہاں ایک نیا رواج (ٹرینڈ) چلا ہے کہ رشتہ کرتے وقت یہ صاف الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم جہیز کے خلاف ہیں، ہم نہیں دیں گے۔ جو کہ تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن میں ایک طرف جہاں کم خرچے میں شادیوں کا رجحان تیزی سے بڑھا، وہیں اب یہ ٹرینڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ ہمارے لوگ اتنے با شعور اور عقل مند ہوگئے ہیں کہ وہ رشتہ کرتے وقت محبت اور عزت کے رشتے باندھنے میں یقین کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ بیٹی کے عوض جہیز بھی دیں۔
حال ہی میں پاکستانی اداکارہ انمول بلوچ نے بھی یہی کہا ہے کہ جب شادی کریں گی تو جہیز نہیں لے کر جائیں گی، اگر لڑکے والوں نے جہیز مانگا تو وہ شادی سے انکار کردیں گی۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ شادی کی فضول رسمیں بھی کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، گھر والوں کی مرضی ہوئی تو ضرور لیکن مجھے ذاتی طور پر بلکل نہیں پسند۔
'' فیس بُک کے ایک پیج '' سول سسٹر '' اور '' ٹو رنگز گلوبل'' میں بھی ایسی کئی کہانیاں ہیں اس کے علاوہ ٹو رنگز میں مختلف لوگ اپنے عزیزوں کے لئے رشتے پوسٹ کرتے ہیں، ان میں بھی یہ بات باقاعدگی سے دیکھی جا رہی ہے کہ لڑکے/لڑکی کی معلومات کے ساتھ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ جہیز کے سخت خلاف ہیں۔
جو کہ ایک خوش آئین بات ہے۔
اس پر سماجی کارکن بھی مطمئن نظر آ رہے ہیں اور لڑکیوں کے والدین بھی کیونکہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہیں لیکن زمانے کی باتوں نے بنا رکھا ہے ، اور جہیز جیسی لعنت کو ختم کرکے لوگ آگے بڑھ رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں پاکستان کی مشہور شخصیات بھی اس طرح کے اقدامات پر اپنی تسلی بخش رائے دیتی ہیں۔ گذشتہ دنوں جب اداکارہ سارہ خان کی شادی فلک شبیر کے ساتھ ہوئی تو انہوں نے بھی اپنی شادی پر جہیز نہیں لیا تھا اور اپنے سسر سے یہی کہا تھا کہ میرے لیئے آپ کی بیٹی ہی بہت قیمتی ہے اس کو خوش رکھنا میری ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کئی ایسے صاحبِ استطاعت لوگ ہیں جو بیٹیوں کو بھاری جہیز دے سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں دیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو یہ معلومات ضرور پسند آئی ہوگی۔
اس معلومات کو ضرور شیئر کریں تاکہ بیٹیوں کے والد پرسکون ہوسکیں اور جہیز جیسی فضول رسومات کو معاشرے سے ختم کر دیا جائے۔