کچھ عرصہ پہلے بیٹی کو شادی میں جہیز میں زیادہ سے زیادہ سونا دیا جاتا تھا تاکہ وہ اسے پہن بھی سکے اور کسی ضرورت کے وقت سونا بیچ کر فائدہ بھی اٹھا سکے۔ سونا دینے کے پیچھے جو مقصد تھا وہ یہ تھا کہ سونے کی قیمت وقت سے ساتھ بڑھتی ہی ہے کم نہیں ہوتی۔ البتہ اب صورتحال ایسی ہے کہ سونے کی قیمت میں اتنے پر لگ چکے ہیں کہ اچھا عام مڈل کلاس آدمی بھی چند ایک تولے سے زیادہ سونا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ایسی صورت میں جب سونا خریدنے کا رواج دن بدن دم توڑتا جارہا ہے لیکن اپنی حیثیت کے مطابق بیٹی کو جہیز بھی لازمی دینا ہے تو ہم بات کریں گے ان چیزوں پر جنھیں سونے کے متبادل کے طور پر بیٹی کو جہیز میں دیا جارہا ہے۔
گھریلو اشیاء
سونا کم دینے کی وجہ سے لوگوں نےجہیز میں گھریلو اشیاء دینے کی تعداد بڑھا دی ہے۔ ان چیزوں میں کپڑے لتے اور باورچی خانے کا سامان تو پہلے سے شامل تھا البتہ اب ان میں مہنگے ہوم اپلائینسز وغیرہ بھی شامل کر دئیے گئے ہیں جیسے فوڈ پروسیسر، مائیکوویو اون ، واٹر ڈسپنسر اور ائیر کنڈیشنڈ وغیرہ۔
موٹر بائیک یا گاڑی
آج کل گاڑی اور موٹر بائیک دینے کا بھی رواج چل نکلا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ تو ویسے بھی نہیں ہے تو کیوں نہ چار یا پھر دو پہیوں والی گاڑی دے کر کم سے کم یہ مسئلہ تو حل کردیا جائے۔ بیٹی کے میکے آنے جانے میں بھی سہولت رہے گی اور داماد کو دفتر جانے میں بھی آسانی ہوجائے گی۔ یوں بیٹی بھی خوش اور داماد بھی خوش۔
تعلیم کا زیور
جی ہاں۔ سننے میں یہ کتنا ہی کتابی کیوں نہ لگے لیکن سچ یہی ہے کہ اب پڑھے لکھے خاندانوں میں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے جس کی وجہ تو ان میں زندگی کا شعور اجاگر کرنا ہی ہوتا ہے البتہ وقت ضرورت اس تعلیم کو بروئے کار لاکر لڑکی گھر چلانے میں شوہر کی مددگار بھی ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح یہ محاورہ ا کہ بیٹی کو جہیز میں تعلیم کا زیور دیا ہے اب بہت حد تک حقیقت کا روپ لیتا جارہا ہے جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے۔ یوں بھی تعلیم کے زیور کے سامنے سونے یا ہیرے جواہرات کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔