پاکستان کی سیاست میں بے نظیر، مریم نواز اور فاطمہ جناح سمیت ہر خاتون سیاستدان کو اس سنگین مشکل کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟

ہماری ویب  |  Feb 10, 2021

ٹاک شوز کے درمیاں ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ،جملہ بازی کرنا تو ویسے بھی پاکستان کی سیاست کی روایت ہے لیکن جب بات خواتین کی ہو تو یہ معاملہ دوسری شکل اختیار کرلیتا ہے اورعورتوں کو سیاست کے میدان میں صرف ان کی جنس کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک “پدرشاہی “ معاشرہ ہے یعنی ایسا معاشرہ جہاں مردوں کی بادشاہت سمجھی جاتی ہو۔ جس معاشرے میں عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا، کام کرنا، خودمختار ہونا بھی قبول نہیں کیا جاتا تو سوچیں کہ سیاست کرنا بھلا کس طرح ہضم ہوسکتا ہےِ؟ نیچے ہم بات کریں گے پاکستان کی ان خواتین سیاسی رہنماؤں کی جنھیں قدم قدم پر عورت ہونے کی وجہ سے مردوں کی جانب سے نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔

صدر ایوب کا مادرِ ملت کو ممتا سے عاری خاتون قرار دینا

وہ عورت جس نے ہر موڑ پر ملک کو آزد کروانے میں اپنے بھائی کے ساتھ جدوجہد کی۔ اسے اسی ملک میں ایک آمر کی طرف سے “ممتا اور نسوانیت سے عاری“ خاتون قراردیا گیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک آمر جرنیل کے آگے ڈٹ جانے اور الیکشن لڑنے کی وجہ سے صدر ایوب نے عورت کی سربراہی کے خلاف کئی علماء سے فتویٰ بھی لیا۔ جبکہ صدر ایوب ایک آزاد خیال شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے لیکن انھوں نے بھی اپنے مدِمقابل کھڑی سیاستدان کو صرف عورت ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا۔

بے نظیر کو اپنا لباس ، رہن سہن کس وجہ سے تبدیل کرنا پڑا؟

بے نظیر بھٹو جو پاکستان کی دو بار وزیرِ اعظم رہ چکی ہیں جب انگلینڈ سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان آئیں اور عملی سیاست میں حصہ لیا تو ان کو خود پر سے مغربی چھاپ ہٹانے اور مردوں کی جانب سے کیچڑ اچھالے جانے والے جملوں سے بچنے کے لئے اپنا لباس تک تبدیل کرنا پڑا کیوں کہ جنسی حوالوں سے نشانہ بنانے کے لئے سب سے پہلا وار عورت کے لباس پر ہی کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بیگم رعنا لیاقت علی خان کی مثال بھی موجود ہے جن کے تمام تر فلاحی کاموں کو بھلا کر لوگوں نے صرف ان کے ساڑھی پہننے کو ہی نمایاں کرکے تنقید کی ۔

دھرنوں میں شامل ہونے والی عورت کی تضحیک

زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب٢٠١٤ میں پی ٹی آئی نے دھرنوں کا اعلان کیا اور ملک بھر سے عوام جوق در جوق ان دھرنوں میں شامل ہونے لگی جس میں ایک بڑی تعداد نوجوان خواتین کی بھی تھی جو “تبدیلی“ کے نعرے پر لبیک کہتی عمران خان کی سیاسی مہم کا حصہ بننا چاہتی تھیں۔ لیکن سیاسی مخالفین نے بجائے دلیل کے زریعے سیاست کرنے کے ، دھرنوں میں شریک ہوئی خواتین کے لباس پر جملہ بازی کی۔ اور خواتین کے سیاسی مہم میں حصہ لینے پر ان کی شدید کردار کشی کی گئی۔

مریم نواز ہیں یا مریم صفدر؟

مسلم لیگ نون کی لیڈر مریم نواز جو خود کو مریم نواز کہلوانا ہی پسند کرتی ہیں انھیں لوگ طنزیہ طور پر ان کے شوہر کے نام سے جوڑ کر مریم صفدر لکھتے ہیں۔ اسی طرح بینظیر بھٹو جو اپنے نام کے ساتھ بھٹو لگاتی تھیں انھی بھی بینظیر زرداری کہا جاتا تھا۔ نام کی اس ہیر پھیر کا مقصد جنسی تعصب نمایاں کرنا اور سامنے والے کی ذات کی نفی کرنا ہے۔ جب عورت اپنی شناخت مخصوص نام سے کرنا چاہتی ہے تو کسی اور کے پاس اس کا نام تبدیل کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟

عوام بھی عورتوں کے خلاف منفی گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں

اوپر ہم نے مثالیں دیں ان خواتین کی جو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی سربراہ ہیں اس کے علاوہ عام سیاستدان عورت کے لئے صورتِ حال مزید سنگین ہے۔ اس سلسے میں ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جیسے کہ عاصمہ جہانگیر، شیری رحمان ، فردوس عاشق اعوان اور حنا ربانی کھر وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ نام ہیں جنھیں سیاست کرنےپر اپنے عورت ہونے کی وجہ سے دوہری زمے داری اٹھانی پڑی۔ معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر کوئی عورت سیاست کرنے نکلتی ہے تو وہ معاشرے میں قائم کردہ اپنی حد سے آگے بڑھ چکی ہے یا پھر یہ کہ سیاست صرف مردوں کے لئے ہے اور عورتوں کا سیاست کرنا مناسب نہیں۔ اسی سوچ کے تحت جب مرد سیاست دان عورتوں کی تضحیک کرنے کے لئے جملے کستے ہیں تو عوام میں وہ فوراّ مقبول ہوجاتے ہیں۔

کیا اب صورتِ حال بہتر ہورہی ہے؟

ماضی میں خواتین سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی کی خبریں عموماٰ سامنے نہیں آتی تھیں جن کی وجہ سینربورڈ اور میڈیا کا آزاد نہ ہونا تھا لیکن موجودہ دور جب دنیا ٹی وی اور اخبارات پر انحصار کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے زریعے ہر لمحہ باخبر ہے، خواتین کو کہے جانے والے کسی ایک بھی جملے کو خبر بنتے اور اس پر ردِعمل آتے دیر نہیں لگتی۔

نوجوان سیاستدان اور گلوکار تیمور رحمان کا کہنا ہے کہ

“ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صورتحال پہلے کے مقابلے میں بڑی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ آج جب کوئی مرد سیاستدان کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہتا ہے تو اس کا ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ لوگ مذمت کرتے ہیں اور ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔‘

لیکن تبدیلی کی زمے داری محض سوشل میڈیا پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کرداد عورتوں کا ہے کہ وہ کس طرح اپنے اصولوں پر ڈٹی رہتی ہیں اور باقی میدانوں کی طرح سیاست میں بھی مردوں کے برابر یا قابلیت کی بنیاد پر ان سے آگے نکلتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More