کچھ لوگوں کو بہت زیادہ مچھر کاٹتے ہیں اور کچھ لوگوں کو کم اور اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا خون میٹھا ہے یا زیادہ ذائقہ دار ہے اس لیئے انہیں بہت زیادہ مچھر کاٹتے ہیں، بہرحال یہ تو ایک ذہنی قیاس کی بات ہے۔ آج ہماری ویب آپ کو ایک سائنسی تحقیق کے حوالے سے آگاہ کر رہی ہے جس کے مطابق:
امریکی ییل یونیورسٹی کے پروفیسر جان کارلسن نے ایک تحقیق کی جس میں انہوں نے مچھروں کی ایک خاص قسم پر مختلف ڈرون کیمرے لگائے اور ایسی ڈیوائس جس کے ذریعے انہوں نے کئی روز تک ان مچھروں کو غور سے دیکھا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ:
'' مچھروں میں ایک ایسا مالیکیولر نظام پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ انسانوں کی خوشبو کو سونھگتے ہیں اور یہ خوشبو اگر انہیں پسند آتی ہے تو یہ اس انسان کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اس کو سونگھ کر ہی کاٹتے ہیں۔
ایک اور برطانوی رپورٹ کے مطابق:
''
مچھروں کی سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے اور وہ سو فٹ کی دوری سے بھی انسانی خون کو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انسانی خون کے گروپ ،اس کی ساخت، خون کا شوگر لیول اور انسان کے جسم پر موجود جراثیم مچھر وں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
ہمارے جسم میں جسم میں موجود لیکٹک ایسڈ مچھروں کو کاٹنے کی دعوت دیتا ہے کیونکہ لیکٹک ایسڈ سے بنی ہر چیز پر مچھر سب سے پہلے آتے ہیں۔
بلڈ گروپ ’’ او''
مچھروں کو سب سے زیادہ پسند ہوتا ہے اور دوسرے نمبر پر ’’اے ‘‘ گروپ ذائقہ دار ہوتا ہے۔
مچھروں کے زیادہ کاٹنے کی ایک وجہ انسانی جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ اخراج بھی ہوتا ہے۔