کوورنا وائرس کا زور ابھی تک ٹوٹا نہیں ہے اور کیسز میں بھی دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم دنیا بھر کے ممالک میں کووڈ 19 ویکسین کی تیاری کا عمل جہاں جاری ہے وہیں چند ممالک میں کورونا ویکسین حتمی مراحل تک پہنچ چکی ہے۔
گزشتہ سال کے آخری کے مہینوں میں ہی کورونا وبا کی لہر میں شدت آگئی جس
کے بعد اسے کووڈ کی دوسری لہر قرار دیا جارہا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ایک دن میں درجنوں کیسز منظر عام پر آرہے ہیں۔
اور وائرس سے متعلق سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ برطانیہ سے ہورہا ہے جس کی وجہ سے اسے برطانوی وائرس کا نام دیا جا رہا ہے۔
وہیں اب برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، برطانیہ میں پھیلنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم پاکستان سمیت کئی ممالک میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔
غیر ملکی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔
امپریئل کالج لندن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم بی 117 کے نتیجے میں کووڈ کیسز ری پروڈکشن یا آر نمبر 0.4 سے 0.7 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
عام طور پر کسی وبائی مرض کے بنیادی ری پروڈکشن نمبر کے لیے ایک اعشاری نظام آر او ویلیو کی مدد لی جاتی ہے، یعنی اس ویلیو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بیماری میں مبتلا فرد مزید کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے۔
خسرے کا آر او نمبر 12 سے 18 ہے جبکہ 2002 اور 2003 میں سارس کی وبا کو آر او 3 نمبر دیا گیا تھا، اس وقت برطانیہ میں کووڈ کا آر نمبر 1.1 سے 1.3 کے درمیان ہے اور کیسز میں کمی لانے کے لیے اسے ایک سے کم کرنا ضروری ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وائرس کی دونوں اقسام کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے کہ وائرس کی یہ قسم کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے، یہ وبا کے آغاز کے بعد سے وائرس میں آنے والی سب سے سنجیدہ تبدیلی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی شرح میں نومبر میں برطانیہ کے لاک ڈاؤن کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا، حالانکہ سابقہ ورژن کے کیسز میں ایک تہائی کمی آئی۔