یوں تو ہر انسان کو دن بھر میں زیادہ سے زیادہ سے پانی پینے کی ضرورت درکار ہوتی ہے اور طبی ماہرین بھی دن میں کم از کام سات سے آٹھ گلاس پانی پینے کی تجویز پیش کرتے ہیں، تاہم شیر خوار بچوں کا معاملہ بڑوں سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چھ ماہ سے کم عمر بچوں کو پانی پلانا نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور یہ بعض اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم بہت زیادہ پانی پی لیتے ہیں تو یہ خون میں شامل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے خون میں موجود سوڈیم کی سطح گھٹنی شروع ہوجاتی ہے۔ جب خون میں سوڈیم لیویل بے حد کم یعنی تقریباً فی گیلن کے حساب سے 0.4 اونس ہوجائے تو جسم ہائپونیٹرمیا کا شکار ہوجاتا ہے۔
ایسی کیفیت میں جسم کے خلیات اضافی پانی کو اپنے اندر جذب کر کے سوڈیم کی سطح کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجتاً جسم کے خلیات غبارے کی طرح پھول جاتے ہیں جس سے الٹی، دل متلی اور عضلات میں کھنچاؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت ایتھلیٹس میں نہایت عام ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ اور مسلسل پانی پیتے ہیں۔
ایسی صورت میں پانی دماغ کے خلیات تک بھی پہنچ سکتا ہے جس کے بعد دماغ کے خلیات بھی پھول جاتے ہیں اور کھوپڑی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے جس ے باعث دماغ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ موت واقع ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
تاہم پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا حل بھی آپ کو بتائیں گے۔ کیونکہ بڑوں میں پانی کی زیادتی سے موت کا امکان نہایت کم ہوتا ہے البتہ شیر خوار بچے اس صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے گردے چونکہ مکمل طور پر نشونما نہیں پائے ہوتے لہٰذا انہیں پلائے جانے والے پانی کی تمام مقدار گردوں میں فلٹر ہونے کے بجائے خون میں شامل ہوجاتی ہے اور یوں چند اونس پانی بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
صرف براہ راست پانی ہی نہیں بلکہ اگر بچوں کو پلائے جانے والے فارمولہ دودھ میں بھی پانی شامل ہو تو اس صورتحال میں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ فوری طور پر بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے جو انہیں خون میں سوڈیم کی مقدار معمول پر لانے کے لیے مختلف مائع جات استعمال کرواتے ہیں۔