ایک لڑکی ہوتے ہوئے کووڈ جیسے خوفزدہ ماحول میں، میں نے کھیتوں کا نظام خود سنبھالا! کورونا وائرس کی اندھیری نگری میں ابھرنے والی امید کی کرن یہ خاتون کاشتکار کون ہیں؟ ایک ایسی کہانی جس نے مثال قائم کردی

ہماری ویب  |  Oct 27, 2020

عالمی وبا کورونا وائرس نے جہاں کئی لوگوں کی روز مرہ کی زندگیوں کو فل اسٹاپ لگایا وہیں کئی ایسے افراد بھی تھے جو اس اندھیری نگری میں ابھر کر سامنے آئے، بہت سے لوگوں کی زندگیاں کورونا کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن نے بدل کر رکھ دیں۔

ان ہی میں سے ایک صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن سے تعلق رکھنے والی خاتون کاشتکار 'سحر اقبال' ہیں جو کووڈ کے طوفان میں اپنے شہر اور لوگوں کے لیے ایک امید کی گھڑی ثابت ہوئیں۔

آئیے جانتے ہیں کہ سحر اقبال ہیں کون اور انہوں نے اپنے شہر اور ملک بھر کے لیے کیا کیا؟

سحر ایک کمیونٹی ڈویلپر، کارپوریٹ بزنس وومن، انگلش لٹریچر کی طالبہ، پبلک ریلیشنگ آفیسر، انفلوئنسر، سرکاری ملازمہ، صحافی، ماں اور بیوی ہیں۔ وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اس قدر باخوبی نبھا رہی ہیں کہ ہر کوئی ان کے بارے میں جان کر عش عش کر اٹھے۔


سحر اقبال نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''کووڈ 19 کے دنوں میں جب شروع شروع میں لاک ڈاؤن لگا تو بطور ایک خاتون کاشتکار میری سب سے بڑی ترجیح یہ تھی کہ میں اپنے کسانوں سے، جن میں سے اکثریت خواتین ہی کی ہے، مکمل طریقے سے ایس او پیز پر عمل درآمد بھی کرواؤں اور اس بات کا بھی خاص خیال رکھوں کہ اس موقع پر کوئی بے روزگار نہ ہو جائے۔ یہ سب پہلے تو بہت مشکل تھا کیونکہ نہ تو ایک ساتھ زیادہ لوگوں کو کھیت میں بھیجا جا سکتا تھا اور نہ ہی ہمیں یہ گوارا تھا کہ ان کی اجرت میں کمی آئے۔ میں نے یہ سب یہ سوچ کر کیا کہ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں''۔

تاہم ہوا کچھ یوں کہ جب پاکستان میں کورونا کی وجہ سے ایس او پیز سخت کیے گئے اور لاک ڈاؤن ہوا تو ان دنوں سحر کے گاؤں میں چاول کی فصل لگ رہی تھی جس کے لیے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے اس فصل کے پودے لگا سکیں۔ مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس طرح سماجی دوری اور ایس او پیز پر عملدرآمد کیسے کروایا جائے؟


سحر نے اس حوالے سے بتایا ''کیونکہ چاول کی فصل لگاتے ہوئے حبس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ اس دوران ماسک نہیں پہن سکتے اور نہ ہی یہ صحت کے لیے اچھا ہے تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایکڑ میں پانچ خواتین سماجی دوری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کریں گی اور کام بھی ایسے کروایا گیا کہ سب کو کام ملے اور لیبر بھی ناراض نہ ہو''۔

خاتون کا کہنا تھا کہ ''یہ وہ وقت تھا جب کمیونٹی کو ہماری ضرورت تھی اور ہم نے یہ ہی سوچا کہ کسی نہ کسی طرح سب کو کچھ نہ کچھ روزگار ملتا رہے اور ساتھ ایس او پیز کا بھی خیال رکھا جائے۔ ہم نے ان کی روزانہ اجرت کو گھنٹوں کے حساب سے بھی نہیں کیا کیونکہ روٹیشن میں انہیں بہت کم ملتا، نہ ان کی روزانہ اجرت کٹی اور نہ ہی ان کا کام بند ہوا۔ ہماری دیکھا دیکھی کئی دوسرے کاشکاروں نے بھی اسے ایک ماڈل کے طور پر اپنایا''۔

انہوں نے بتایا کہ ''ہمارے علاقے کے لوگوں کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ بھیک نہیں لیتے۔ ہمیں کوئی کام دیں تو وہ کریں گے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کوئی اس طرح کا کام کرتے ہیں جس سے مالی فائدہ بھی اور ان کی تربیت بھی ہو جائے۔ سماجی دوری بھی رہے اور تربیت بھی''۔

سحر کا کہنا تھا کہ ''اس وقت مکئی کی فصل لگی ہوئی تھی اور ہم نے سوچا یہ اچھا موقع ہے۔ ہم نے لوگوں کو سائلیج بنانے کی تربیت دینے شروع کر دی۔ (سائیلج فصل کا وہ حصہ ہوتا ہے جو بچ جاتا اور اسے عموماً جلا دیا جاتا ہے تاکہ اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے، لیکن اس کے جلانے سے بہت دھواں اور سموگ پیدا ہوتی ہے جو سردیوں میں آلودگی کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے)''۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہم نے انٹرنیٹ لگا کر روزانہ 5 سے 6 لوگوں کو اس کو استعمال کرنے کی تربیت دینی شروع کر دی کہ مشینیں کس طرح چلانی ہیں، اس کو نرم کس طرح کرنا ہے اور ٹرانسپورٹیشن کس طرح کرنی ہے''۔


خاتون نے بتایا کہ ''جب میں نے کووڈ جیسے خوفزدہ ماحول میں لڑکی ہوتے ہوئے خود کھیتوں میں جا کر انتظام سنبھالا تو دوسری خواتین کو بھی اس سے بہت حوصلہ ملا اور وہ مجھ سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لینے لگیں''۔

سحر اقبال کے مطابق ''اپنے لیے تو سبھی کرتے ہیں لیکن جو دوسروں کے لیے کام کر کے خوشی ملتی ہے ایسی کوئی خوشی نہیں''۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More