گزشتہ 3 دنوں کے دوران کراچی میں ایسی نوعیت کے واقعات پیش آئے جس نے ہر دوسرے بندے کو الجھا کر رکھ دیا۔
ہوا کچھ یوں کہ 18 اکتوبر بروز اتوار کو کراچی میں پی ڈی ایم کا جلسہ منعقد ہوا، مزار قائد پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے حاضری دی، لیکن شاید یہ دونوں ہی مزار کا تقدس بھول گئے اور کارکنان سے ووٹ کو عزت دو کے اونچے اونچے نعرے لگوا دیے جس میں کیپٹن (ر) صفدر پیش پیش تھے۔
اس واقعے نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی، لوگوں نے ن لیگ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت سے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔ 19 اکتوبر بروز پیر کی پہلی خبر ہی یہ ہی تھی کہ صفدر صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔
لیکن ایک منٹ ٹھہریئے!! واپس جاتے ہیں کچھ گھنٹے پہلے
اتوار اور پیر کی درمیانی شب 4 بجے کچھ نا معلوم افراد نے آئی جی سندھ مشتاق مہر کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ فوری طور پر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا حکم جاری کیا جائے تاکہ وہ سلاخوں کے پیچھے ہوں۔ وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا، یوں پیر کی صبح گرفتاری بھی عمل میں آگئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رات کے 4 بجے آئی جی سندھ پر دباؤ ڈالنے والے، انہیں ہراساں کرنے والے کون لوگ تھے؟
اس حوالے سے نامور صحافی 'حامد میر' نے ٹوئٹر پر اپنا پیغام جاری کرتے ہوئے کچھ اہم انکشاف کیا ہے۔
صحافی کا کہنا تھا کہ ''بدقسمت واقعہ پیش آیا، سندھ حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کو اطلاعات فراہم کی تھیں کہ آئی جی سندھ کو صبح ٤ بجے رینجرز کی جانب سے اغوا کر کے سیکٹر کمانڈر آفس لے جایا گیا، جہاں ایڈیشنل آئی جی پہلے سے موجود تھے، اور انہوں نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر زور دیا''۔
تاہم اس سارے معاملے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی پیچھے نہ رہے، انہوں نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیا اور آئی جی سندھ کو فون کیا۔ فون پر کیا باتیں کی گئیں یہ مشہور صحافی 'کامران خان' نے بتایا۔
کامران خان کے اپنے ٹوئٹ میں بتایا کہ ''ایک اور اہم پیش رفت میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے علیحدہ ٹیلیفون کال میں آئی جی سندھ مشتاق مہر سے پولیس کی خدمات کو سراہتے ہوئے حالیہ واقعے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، اور یقین دلایا کہ اس کی شفاف تحقیقات ہوں گی، اقدامات کیے جائیں گے۔ پولیس و فوجی اداروں میں رابطے مزید مستحکم و مظبوط ہوں''۔
واضح رہے آئی جی سندھ کے اغوا کے بعد کراچی پولیس نے حکومت سے کچھ دن کی چھٹیاں طلب کرلی تھیں، اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ مشتاق مہر کے اس طرح اغوا سے ہمیں دلی دکھ ہوا ہے۔